۲۰۱۰–۲۰۱۹
ہر روز ابدی
اکتوبر 2017


ہر روز ابدی

اِس بارے حلیمی لازمی ہے کہ ہم کون ہیں اور ہمارے لئے خدا کے مقاصد کیا ہیں۔

برطانوی مشن میں بطور نوجوان مشنری اپنی خدمت سے ، میں برطانوی مزاح سے لطف انداوز ہوا ہوں۔ یہ بعض اوقات زندگی کے لئے خود سے محروم ، معمولی، عاجزانہ نقطہ نظر کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اِس کا ایک نمونہ یہ ہے کہ موسم گرماکو کیسے بیان کیا گیا ہے۔ برطانوی موسم گرما قدرے مختصر اور غیر متوقع ہے ۔ جیسے ایک مصنف نے کم اہم انداز میں کہا ہے، ”یہ میرا سال کا سب سے پسنددیدہ دن ہے۔“ 1 ،میرے ایک من پسند کارٹون کردار کو ایک صبح دیر سے اپنے بستر سے اُٹھتے ہوئے اور اپنے کُتوں سے یہ کہتے ہوئے دکھایا گیا ہے، ”او میرا بھلا ہو! میر اخیال ہے ہم کافی دیر سوتے رہےہیں اور گرمیاں گزر گئیں۔“2

اس مزاح میں اِس خوبصورت زمین پر ہماری زندگیوں کے لئے مماثلت ہے۔ صحائف بڑے واضح ہیں کہ ہمارا قیمتی فانی وجودنہایت قلیل مدت کے لئے ہے ایک ابدی تناظر میں ایسا کہا جا سکتا ہے، زمین پر ہمارا وقت برطانوی موسمِ گرما کی مانند بہت مختصر ہے۔3

بعض اوقات انسان کا مقصد اور اُسکے وجود کو بھی بڑ ی عاجزانہ اصطلاحات میں بیان کیا جاتاہے۔ موسیٰ نبی ایسے ماحول میں پروان چڑھاجسے آج کچھ لوگ خوش قسمت پس منظر کہہ سکتے ہیں ۔ جیسے بیش قیمت موتی میں مرقوم ہے ، خُداوند نے، موسٰی کو اُسکی پیغمبرانہ ذمہ داری کے لئے تیا رکرتے ہوئے ، دُنیا اور تمام نبی نوع انسان جو ہیں اور جو خلق کیے گئے تھے اُسے دِکھائے۔4 موسٰی کا ردِعمل قدرے حیران کُن تھا، ”اب … میں جانتا ہوں کہ انسان کچھ بھی نہیں ، جس بات کا میں نے کبھی تصور نہیں کیا تھا۔“5

بعد میں، موسیٰ نے غیروقعتی کے جو احساسات محسوس کیےہونگے، خُد انے ، اپنے اصل مقصد کا اعلان کرتے ہوئے ، اُنکا لب لباب پیش کیا جو اُن کی تردیدلگتا ہے : ” پس دیکھو، یہ میرا کار اورمیراجلال ہے — انسانوں کے لئے لافانیت اور ابدی زندگی لانا ۔“6

خُدا کے سامنے ہم سب برابر ہیں۔ اُسکی تعلیم واضح ہے۔ مورمن کی کتاب میں ، ہم پڑھتے ہیں ، ”خُداکی نظر میں سب ایک ہیں ، بشمول“ کا لا ہو یا گورا،غلام ہو یاآزاد، مر دہو یا عورت۔“7 لہذا ، سب کو خُداو ند کے پاس آنے کے لئے مدعو کیا گیا ہے۔8

کوئی بھی جو باپ کے منصوبہ کے تحت نسل، جنس، قومیت، زبان، یا معاشی حالات جیسے کرداروں کی بدولت برتری کا دعوی کرتا ہے اخلاقی طور پر غلط ہے او ر ہمارے باپ کے تمام بچوں کے لئے خُداوند کے حقیقی مقصد کا فہم نہیں رکھتا ہے۔9

بد قسمتی سے ، ہمارےزمانے میں معاشرے کے تقریباً ہر طبقہ میں ، ہم خود اہمیتی اور گھمنڈ کا بہائو دیکھتے ہیں جبکہ فروتنی اور خُد اکو جوابدہی منکر نظر آتی ہے۔ معاشرے میں بہت سے اپنے لنگر (بنیادی حقیقتیں) کھو چُکے ہیں اور اِس کا فہم نہیں رکھتے ہم زمین پر کیوں ہیں۔ حقیقی فروتنی، جو کہ ہمارے لئے خُداوند کے مقاصد حاصل کرنے کے لئے لازم ہے، کبھی کبھار ہی نظر آتی ہے۔10

مسیح کی فروتنی، راستبازی، کردار، اور ذہانت کی شدت کو سمجھنا اہم ہے، جیسے صحائف میں پیش کی گئی ہے۔ مسیح جیسی ان خوبیوں اور خصائل ، خاص طور پر فروتنی کی ، روز بہ روز کوشش کرنے کی اہمیت کو کم تر جاننا بیوقوفی ہے۔11

صحائف واضح ہیں کہ اگرچہ یہ زندگی قدرے مختصر ہے، یہ ناقابلِ یقین حد تک اہم ہے۔ امیولک، جو کہ مورمن کی کتاب میں ایلما کا مشنری ساتھی تھا، فرماتا ہے، ”کیونکہ دیکھو یہ زندگی انسان کےلئے خُدا سے مُلاقات کی تیاری کا وقت ہے؛ ہاں دیکھو ، اس زندگی کا وقت انسان کے لئے اپنی محنت کرنے کا وقت ہے“12 ہم ، میرے کارٹون کردار کی مانند اِس زندگی میں دیر تک سوتے نہیں رہناسچاہتے ہیں ۔

منجی کا فروتنی اور قُربانی کا نمونہ ساری تاریخ انسانی میں سب سے اہم ترین واقعہ ہے۔ منجی، حتی کہ خُدائی رکن ہوتے ہوئے بھی، ایک حقیر بچے کی مانند زمین پر آنے اور ایسے وجود کے ساتھ زندگی شروع کرنے کے لئے رضامند تھا جس میں اپنے بھائیوں اور بہنوں کو سیکھانا اور شفا دینا اور اپنے کفارہ کو کامل کرنے کی خاطر آخرکار گتسمنی میں اور صلیب پر ناقابل بیان تکلیف برداشت کرنا شامل تھا۔ مسیح کی جانب سے محبت اور فروتنی کا یہ عمل اُسکے حسن سلوک کے طور پر جاناجاتا ہے۔ 13 اُس نے یہ ہر اُس مرد اور عورت کے لئے کیا جو خُدا نے خلق کیاہے یا کرے گا۔

ہمارا آسمانی باپ نہیں چاہتا اُس کے بچے پست ہمت ہوں یا سلیسٹل جلال کی اپنی مہم کو ترک کردیں ۔ جب خُدا باپ اور اُسکے بیٹے مسیح پر واقعی غور کرتے ہیں، وہ کون ہیں۔ اور اُنہوں نے ہماری خاطر کیا مکمل کیا ہے ، یہ ہمیں تعظیم ، حیرانی، تشکر، اور فروتنی سے معمور کردے گا۔

خُداوند کو اُسکی کلیسیاء قائم کرنے میں مدد دینے کے لئے فروتنی ضروری ہے

ایلما نے اپنے زمانے میں ایک سوال پوچھا جو آج بھی قابلِ ذکر ہے: ”اگر تمھارے دِلوں کو تبدیلی کا تجربہ ہوا ، اور اگر تم نے اُس کی مخلصی کا محبت بھرا نغمعہ گانا چاہاتھا، تو میں تم سے پوچھتا ہوں ، کیا تم اب بھی یہ محسوس کر سکتے ہو؟“14 ایلما جاری رکھتا ہے،”اگر تم اِس وقت مر جاؤ، … تو کیا تم کہہ سکو گے کہ ہم تو بڑے فروتن تھے؟“15

ہر بار جب میں چھوٹے ایلما کے بارے خُدا کے کلام کی تبلیغ کرنےکے لئے ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے اپنے کردار سے چشم پوشی کرنےسے متعلق پڑھتا ہوں ،16 میں متاثر ہوتا ہوں۔ ایلما واضح طر پر خُدا باپ اور یسوع مسیح کی گہری گواہی رکھتا تھا اور اور بغیر کسی شک کے مکمل طور پر اُن کو جوابدہی محسو س کرتا تھا۔ وہ حیثیت اور عہدہ کو ترک کرنے کے لئے درست ترجیحات اور فروتنی رکھتا تھا کیونکہ اُس نے محسوس کیا کہ خُداوند کی خدمت کرنا زیادہ اہم تھا۔

کلیسیاء کو قائم کرنے میں مدد دینے کے لئے اپنی زندگیوں میں وافر فروتنی خاص طور پر قابلِ قدر ہے۔ کلیسیائی تاریخ سے ایک مثال آشکارا کررہی ہے۔ جون 1837 میں ، کرٹ لینڈ ہیکل میں ہونے کے دوران نبی جوزف نے رسول ہیبر سی ۔ قمبل کو یسو ع مسیح کی انجیل کو ”انگلستان لے جانے … اور اُس قوم کے لئے نجات کا دروازہ کھولنے کا الہام پایا۔“17 رسول اورسن ہائیڈ اور چند دوسرے افراد کو اُس کے ہمراہ جانے کے لئے مقرر کیا گیا۔ ایلڈر قمبل کا جواب شاندار تھا۔ ”ایسی اہم ذمہ داری کے لئے مقرر کیے جانے کا تصور تقریباًاُس سے کہیں زیادہ تھا جو میں برداشت کر سکتا تھا۔ … [میں] اُس بوجھ تلے تقریباً ڈوب جانے کو تیار تھا جو مجھ پر ڈالا گیا تھا۔“18 پھر بھی، اُس نے مطلق ایمان ،عزم ، او رفروتنی کے ساتھ ذمہ داری کا آغاز کیا۔

بعض اوقات فروتنی بلاہٹوں کو قبو ل کرنا ہے جب ہم کافی(موزوں) محسوس نہیں کرتے ہیں ۔ بعض اوقات فروتنی وفاداری سے خدمت کرنا ہے جب ہم خود کو زیادہ اہم ذمہ داری کے قابل سمجھتے ہیں ۔ فروتن راہنمائوں نے قول و فعل سے قائم کیا ہے کہ یہ اہم نہیں ہم کہاں خدمت کرتے ہیں ، بلکہ ہم کتنی وفاداری سے خدمت کرتے ہیں۔19بعض اوقات فروتنی مجروح احساسات پر غالب آنا ہے جب ہم محسوس کرتے ہیں راہنمائوں یا دوسروں نے ہمارے ساتھ بدسلوکی کی ہے۔

23  جولائی 1837کو ، نبی جوزف ایلڈر تھامس  بی۔ مارش ، بارہ رسولوں کی جماعت کے صدر سے ملے۔ ایلڈر مارش بظآہر مایوس تھا کہ نبی نے اُس سے مشورہ کیے بغیر اُس کی جماعت کے دو اراکین کو انگلستان جانے کے لئے بُلایا تھا۔ جب جوزف ایلڈ رمارش سے مِلا، کوئی بھی مجروح احساسات بالائے طاق رکھ دیا گیا ، اور نبی نے ایک شاندار مکاشفہ پایا۔ اب یہ تعلیم اور عہد کا 112 واں باب ہے ۔20 یہ فروتنی اور مشنری کام سے متعلق ناقابلِ یقین ہدایات دیتا ہے۔ آیت 10پڑھتی ہے، ”تم فروتن بنو؛ اور خُداوندتمھارا خُدا ہاتھ پکڑکرتمھاری راہنمائی کرے گا، اور تمھیں تمھاری دُعائوں کا جواب دے گا۔“21

یہ مکاشفہ ٹھیک اُسی دن رونما ہوا جب ایلڈر قمبل، ہائیڈ ، اور جان گُڈسن ، فروتنی سے معمور، پریسٹن، انگلستان کے وائیکسل ہال گرجا گھر۔22 میں یسوع مسیح کی بحال انجیل کی منادی کر رہے تھے۔ یہ پہلی مرتبہ تھا کہ مشنری شمالی امریکہ سے باہر اس زمانے میں بحال انجیل کی منادی کر رہے تھے۔ اُن کی مشنری کاوشوں کا نتیجہ تقریباً فوری طورپر تبدیل ہونے والوں کے بپتسمے اور متعدد اراکین کی راہنمائی کرنا تھا۔23

مکاشفہ کے بعد کے حصے ہمارے دور میں مشنری کوششوں کی راہنمائی کرتے ہیں۔ وہ ، جزوی طور پر بتاتے ہیں ، ”جس کو بھی تم میرے نام میں بھیجو گے … قدرت پائے گا کہ کسی بھی قوم کے لئے میری بادشاہی کے دوازے کھولے … جس قدر بھی وہ خودکو میرے حضور حلیم کرتےہیں ، اور میرے کلام پر چلتے ہیں ، اور میرے روح کی آواز کو سُنتے ہیں ۔“24

فروتنی جو اِن مشنری کاوشوں کا خاصہ تھِی اُس نے خُداوند کو ایک شاندار انداز میں اپنی کلیسیاء کوقائم کرنے کی اجازت دی۔

خوش قسمتی سے ، ہم آج کلیسیاء میں اِسے مسلسل دیکھتے ہیں ۔ اراکین ، جس میں اُبھرتی ہوئی نسل بھی شامل ہے ، مشن کی خدمت کرنے کے لئے اپنا وقت دیتے،اور تعلیم و روزگار کو موخر کرتےہیں بہت سے بزرگ اراکین جس بھی حیثیت میں بُلائے جاتے ہیں خُدا کی خدمت کرنے کی خاطر اپنا روزگار چھوڑتے اور دیگر قربانیاں دیتے ہیں ہم اُسکے مقاصد کو پورا کرنےکے لئے ذاتی مسائل کو ہماری توجہ ہٹانے یا تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دیتے ہیں ۔25 کلیسیائی خدمت فروتنی کا تقاضا کرتی ہے۔ جب بُلائے جاتے ہیں ہم فروتنی سے اپنی پوری طاقت، پورے دل ، اور جان سے خدمت کرتے ہیں۔ کلییساء کے ہر درجہ پر ، مسیح جیسی فروتنی کی خوبی کو سمجھنا اہم ہے

افرادکو خُد اسے ملنے کی تیاری میں مدد دینے کے لئے روز مرہ فرتنی لازم ہے۔

خُدا کی عزت کرنےاور خود کو اُس کی مرضی کے تابع کرنے 26 کا مقصد آج کے معاشرے میں اِس کی اُس قدر توقیر نہیں کی جاتی جیسے اِس کی ماضی میں کی جاتی تھی۔ دوسرے عقائد کے کچھ مسیحی راہنما یقین کرتے ہیں ہم ایک ایسی دُنیا میں جی رہے ہیں جس میں مسحیت مزید متعلقہ نہیں ہے۔27

نسلوں سے، مذہب پر مبنی فروتنی کی فضیلت اور حیا کے سماجی جوہر اور ستم ظریفی بنیادی معیار رہی ہیں۔

آج کی دُنیا میں ، تکبر، خود کو فروغ دینے، اور نام نہاد ”صداقت — “پر بہت زیادہ زور دیا گیاہے جو بعض اوقات حقیقی فروتنی کے فقدان کی جانب لے جاتا ہے۔ کچھ تجویز کرتے ہیں آج خوشی کے لئے اخلاقی اقدار میں ”حقیقی ہونا، مضبوط ہونا، اور پیداواری ہونا—اور سب سے اہم دوسروں لوگوں پر بھروسہ نہ کرنا شامل ہے … کیونکہ آپ کی قسمت … آپ کے اپنے ہاتھوں میں ہے۔“28

صحائف ایک الگ نقطہِ نظر کی وکالت کرتے ہیں۔ وہ تجویز کرتے ہیں ہمیں یسوع مسیح کے حقیقی شاگرد ہونا چاہیے۔ اِ س میں خُدا کو جوابدہی کے قوی احساس اور زندگی کے لئے فروتن نقطہِ نظر کو قائم کرنا شامل ہے۔ بنیامین بادشاہ نے سیکھایا نفسانی آدمی خُد اکا دشمن ہےاور وکالت کرتا ہے کہ ہمیں خود کو ”پاک روح کی ترغیب“ کے حوالے کرناچاہیے۔ اُس نے، دیگر باتوں کے درمیان واضح کیا کہ یہ ”تابعدار، حلیم، فروتن، صابر، [اور]محبت سے معمور۔“ ہونے کا تقاضا کرتاہے۔29

بعض لوگ حقیقت کا غلط استعمال کرتے ہیں اوراس کا مطلب لیتے ہوئے نفسانی آدمی اوراس کی خصوِصیات میں خوش ہوتے ہیں جوکہ فروتنی، مہربانی، رحم، معافی، اور شائستگی کے برعکس ہیں۔ ہم حقیقیت پسندی کو غیر مسیحی رویے کا بہانہ بنائے بغیر بطورطفلِ خُدا اپنی ذاتی انفرادیت میں خوش ہو سکتے ہیں۔

فروتنی کے لئے ہماری جد وجہد میں ، جدید انٹر نیٹ تکبر سے بچنے میں چنوتیاں پیدا کرتا ہے۔ دو مثالیں خود مختار ہیں ، ”میری طرف دیکھو“ کا نقطہ نظر یا سوشل میڈیا پر دوسروں پر کیچڑ اُچھالنا۔ ایک اورمثال ”منکسر المزج شیخی “ہے۔ اس کی وضاحت ”بظآہراً معولی یا خو د سے محروم بیانیہ [یا تصویر] کے طور پر کی جاتی ہے جس کا اصل مقصد اُس جانب توجہ دلانا ہے جس پر کوئی شخص فخر کرتا ہے۔“30 انبیاء نے ہمیشہ تکبر کے بارے اور دُنیا کی باطل چیزو ں پر روز دیتے ہوئے تنبہیہ کی ہے۔31

وسیع پیمانے پر سماجی مکالمے کی خرابی بھی باعث تشویش ہے۔ مختاری کا ابدی اصول تقاضا کرتا ہے کہ ہم بہت سے انتخابات کی عزت کریں جن سے ہم متفق نہیں بھی ہیں ۔ تنازعات او رجھگڑے اب اکثر ”عمومی شائستگی کی حدو د“ کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔32 ہمیں اور زیادہ حیاء اور فروتنی کی ضرورت ہے۔

ایلما ”اپنے دِلوں کو تکبر سے بھرنے،“ کی ”اِسی سوچ میں بضد کہ ایک دوسرے سے بہتر ہو،“ اور فروتنوں پر ظلم کرنے کے خلاف خبردار کرتاہے جو ” خُد اکے پاک طریق کی پیروری کرتےہیں۔“33

میں نے تمام مذاہب ( عقائد ) کے لوگوں کے درمیان حقیقی اچھائی پائی ہے جو فروتن ہیں اور خُدا کو جوابدہ محسو س کرتے ہیں ۔ اُن میں سے بہت سے عہد عتیق کے میکاہ نبی کی پیروی کرتے ہیں ، جس نے اعلان کیا، ”خُداوند اِس کے سِوا تجھ سے کیا چاہتا ہے کہ تو اِنصاف کرے، اور رحم دِلی کو عزیز رکھے ، اور اپنے خُداوند کے حضور فروتنی سے چلے؟“34

جب ہم حقیقی طور پر فروتن ہوتے ہیں ، ہم معافی کے لئے دُعا کرتےہیں اور دوسروں کو معاف کرتے ہیں جیسے ہم مضایاہ میں پڑھتے ہیں ، ایلما نے سیکھایا جتنی مرتبہ ہم توبہ کرتے ہیں ، خُداوند ہماری خطائیں معاف کرے گا۔ .35 اِس کے برعکس ، جیسے دُعائے ربانی میں ذکر کیا گیا ہے36 ، جب ہم دوسروں کے قصور معاف نہیں کرتے، ہم خود کو ملعون ٹھہراتے ہیں۔37 یسوع مسیح کے کفارہ کی بدولت، توبہ کے ذریعے ہمارے گناہ معاف کیے جاتے ہیں ۔ جب ہم اُن کو معاف نہیں کرتے جو ہمارے خلاف قصور کرتے ہیں ، توہم منجی کے کفارہ کو رد کرتے ہیں۔ کینہ رکھنا اور معاف کرنے اور مسیح کی مانند فروتنی سے اپنے تعلقات کو دیکھنے سے منکر ہونا حقیقی طور پر ہمیں لعنت کے تحت لاتا ہے کینہ رکھنا ہماری جانوں کے لئے زہر یلا ہے۔38

میں گھمنڈ کی کسی بھی صورت کے خلاف خبردار کرنا چاہتا ہوں۔ خُداوندنے ، مرونی نبی کے ذریعے، فروتن اور گھمنڈی کے مابین واضح فرق بناتا ہے: ”احمق مذاق اُڑائیں گے، لیکن ماتم بھی کریں گے؛ اور فروتنوں کے لئے میرا فضل کافی ہے۔“ خُداوند مزید فرماتا ہے، ”میں انسانوں کو اِس لئے کمزور کرتا ہوں تاکہ وہ فروتن ہو؛ اور میرا فضل اُن تمام انسانوں کے لئے کافی ہے جو اپنے آپ کو میرے سامنے فروتن کرتے ہیں ؛ کیونکہ اگر وہ اپنے آپ کو میرے سامنے فروتن کریں ، اور مجھ پر ایمان لائیں ، تب میں اُن کی کمزوریوں کو مضبوطی میں بدل دوں گا۔“39

اپنی متعدد برکات اور الہٰی معاونت کے لئے شکر گذار ہونا بھی فروتنی میں شامل ہے۔ فروتنی کسی بڑی قابلِ شناخت کامیابی یا کسی بڑے مسئلہ پر غآلب آنا نہیں ہے۔ یہ روحانی مضبوطی کی علامت ہے۔ یہ وہ مبہم اعتماد ہے کہ روز بہ روز اور گھڑی بہ گھڑی ہم خُداوند پر بھروسہ ، اُسکی خدمت ، اور اُسکے مقاصد کو حاصل کر سکتے ہیں۔ میری دُعا ہے کہ اس متضاد دُنیا میں ہم ہر روز حقیقی فروتنی کے لئےمسلسل کوشش کرتے رہیں۔ ایک پسندیدہ نظم اسے یوں بتاتی ہے:

عظمت کا امتحان ہےایسے

پورا کرتا ہے کوئی ابدی ہر روز کیسے۔40

میں منجی اور اُسکے کفارہ اور ہر روز فروتنی سے اُسکی خدمت کرنے کی مغلوب کر لینے والی اہمیت کی یقینی گواہی دیتا ہوں۔ یسوع مسیح کے نام میں ، آمین۔

حوالہ جات

  1. کیتھی لیٹی، ”Town and Country Notebook“ آڈیٹ وکٹوریا مارسٹون، جون 7، 2017، 32؛ تاکید شامل کی گئی ہے۔ 

  2. اینی ٹیمپیسٹ, Tottering-by-Gently”،Country Life“, , اکتوبر  3، 2012، 128

  3. دیکھئے زبور 90: 4۔ زمینی سالوں کے حساب سے چاہے طویل یا قلیل، ابدی تناظرمیں ہمارا عرصہ حیات بہت مختصر ہے۔ ”خُدا کے لئے یہ سب ایک دِن ہے ، اور وقت صرف انسان ناپتے ہیں“(Alma 40:8)۔ پطرس رسول نے اعلان کیا، ” اے عزیزو، یہ خاص بات تم پر پوشیدہ نہ رہے کہ خُداوند کے نزدیک ایک دِن ہزار برس کے برابر ہے “(2  پطرس3:8

  4. دیکھئےموسٰی 1: 6–9۔ مسیح یہ بات اختیارِ الہیٰ کے منصب کے ساتھ کر رہا ہے( دیکھئے   کلیسیائی صدور کی تعلیمات: جوزف فیلڈنگ سمتھ[ 2013]، 47، ذیلی نوٹ 11)۔

  5. موسٰی 1:10۔

  6. موسٰی 1:39 ۔

  7. 2  نیفی 26:33؛ تعلیم اور عہد 1:34–35; 38:16; باضآبطہ اعلامیہ 2 بھی دیکھئے

  8. تعلیم اور عہد 20:37 شروع ہوتاہے، ”وہ سب جو خُود کو خُدا کے سامنے فروتن کرتے ہیں ۔“ پھر یہ بپتسمہ کے لئے شرائظ لاگو کرتی ہے۔ متی 11:28. بھی دیکھئے۔

  9. دیکھئے تعلیم اور عہد 20:37۔

  10. ہم جانتے ہیں کہ اگر ہم توبہ نہیں کرتے، رسومات نہیں پاتے، اور عہد کی راہ کی پیروی نہیں کرتے جو ہمیں ابدیت کے لئے تیار کرتا ہے ، ”تب تاریکی کی رات[ آتی ]ہے جس کے بعد کوئی کام نہ ہوگا۔“( ایلما 33:34

  11. دیکھئے 3 نیفی 27: 27۔

  12. ایلما 32:34۔

  13. دیکھئے1 نیفی 11: 26–33 ؛ 2  نیفی 53:9 ؛ یعقوب4: 7 ؛ تعلیم اور عہد 122: 8۔

  14. ایلما 5:26۔

  15. ایلما 5:27 ۔

  16. دیکھئےایلما 19:4۔

  17. جوزف سمتھ ، ہیبر سی۔ قمبل میں،“History of Heber Chase Kimball by His Own Dictation” ca. 1842–1856, Heber C. Kimball Papers،54,کلیسیائی تاریخ کی لائبریر ی ؛ اورسن ایف۔ وٹنی ، ife of Heber C. Kimball, an Apostle; the Father and Founder of the British Mission ، ( 1888)،116.

  18. ہیبر  سی۔ قمبل, ”History of Heber Chase Kimball By His Own Dictation، 54“ ; اورسن ایف ۔وٹنی، Life of Heber C۔ Kimball, 116۔

  19. صدر جے روبن کلارک جونئِر نے سیکھایا:  ”خُداوند کی خدمت میں ، یہ اہم نہیں آپ کہاں خدمت کرتے ہیں ، بلکہ کیسے کرتے ہیں ۔ کلیسیائے یسوع مسیح برائے مقدسینِ ایام آخر میں ، ایک شخص وہ عہدہ لیتا ہے جس پر وہ صحیح طریقہ سے بُلایا جاتا ہے، عہدہ جس کا نہ وہ خواہاں ہوتا ہے اور نہ انکار کرتا ہے“ ( کانفرنس رپورٹ میں ، اپریل 1951، 154 )۔

  20. دیکھئے The Joseph SmithPapers, Documents, Volume 5: اکتوبر 1835– جنوری 1838, ed. Brent M. Rogers and others (2017), 412–17. ویلاٹی قیمبل نے ایک خظ میں اپنےشوہر ہیبر  سی۔ قمبل کو رپورٹ دی کہ اُس نےمکاشفہ کی ” ایلڈر مارش کی کتاب سے نقل کر لی ہے جیسے اُس نے نبی جوزف کے منہ سے لکھی تھی “ (Vilate Murray Kimball to Heber C. قمبل ، ستمبر   6، 1837، The Joseph Smith Papers, Documents, Volume 5 میں : اکتوبر 1835– جنوری 1838, 412).

  21. تعلیم اور عہد 112: 10 ؛ تاکید شامل کی گئی ہے۔

  22. دیکھئے Orson F. Whitney, Life of Heber C. Kimball, 136–37۔

  23. دیکھئے Orson F. Whitney, Life of Heber C. Kimball, 149۔

  24. تعلیم اور عہد 21:112ـــ22؛ تاکید شامل کی گئی ہے۔

  25. ”اگرچہ ہم کسی بُلاہٹ سے سبکدوش کیے جانے کے لئَ نہیں کہتےہیں، اگر ہارے حالات بدل جائِں یہ بالکل آرڈر میں ہے کہ ہم اُن سے مشورت کریں جنہوں نے بُلاہٹ دی ہے اور پھر فیصلہ اُن پر چھوڑ دیں ۔“ ( بوائیڈ  کے۔ پیکر، ” Called to Serve،“ اینزائن ، نومبر 1997, 8)۔

  26. دیکھئے ”فروتنی ،“ میر انجیل کا پرچار کرو ،کے  باب 6 میں : مشنری خدمت کے لئے راہنما کتاب( 2004)، 120۔

  27. دیکھئےCharles J Chaput, Strangers in a Strange Land (2017), 14–15; see also Rod Dreher, The Benedict Option (2017).

  28. کارل سیڈرسٹورم، “The Dangers of Happiness” New York Times, J جولائی   19، 2015، SR8۔

  29. مضایاہ 19:3۔

  30. English Oxford Living Dictionaries, “humblebrag,” en.oxforddictionaries.com/definition/humblebrag.

  31. چند ایک طریقوں سے یہ ایلما کی اُن کے بارے وضاحت کی بازگشت ہے جو ” ہر طرح کی اُن قیمتی چیزوں کے باعث گھمنڈ کرنے لگے تھے، جو اُنہوں نے اپنی محنت سے کمائی تھیں ؛ … [مگر] … اپنی نظروں میں نہایت متکبر ہو گئے تھے“ ( ایلما 6:4)۔ یہ نوٹ کیا گیا ہے کہ ایک منکسر المزاج شیخی بھی شیخی ہی ہے

  32. David Brooks, “Finding a Way to Roll Back Fanaticism,” New York Times, Aug. 15, 2017, A23.

  33. ایلما 5: 53, 54۔

  34. میکاہ 8:6 ۔

  35. دیکھئے مضایاہ 26:30 ۔

  36. دیکھئے متی 6: 12, 15 ۔

  37. دیکھئے مضایاہ 31:26 ۔

  38. جیسے نیلسن منڈیلا نے کہا ہے، ”نفرت زہر پینے جیسا ہے اور پھر اُمید کرنا کہ یہ آپ کے دشمنوں کو ہلاک کر دے گا۔“ (in Jessica Durando, “15 of Nelson Mandela’s Best Quotes,” USA Today, Dec. 5, 2013, usatoday.com).

  39. عیتر 12: 26، 27 ؛ تاکید شامل کی گئی ہے۔

  40. اینڈومنڈ ونیس کُک، ”The Eternal Everyday,،“Impertinent Poems (1907),21.