۲۰۱۰–۲۰۱۹
زندگی کی روٹی جو آسمانی سے اُتری
اکتوبر 2017


زندگی کی روٹی جو آسمانی سے اُتری

اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم مسیح میں بسیں اور مسیح ہم میں بسے تو پھر ہمیں پاکبازی کے متلاشی ہونا ہے۔

گلیل میں یسوع کےپانچ ہزار کو صرف” پانچ روٹیوں اور دو مچھلیوں“1 سے معجزانہ طور پر سیر کرنے کے اگلے دن، اُس نے دوبارہ کفرنحوم میں لوگوں سے کلام کیا۔ نجات دہندہ نے یہ بھانپ لیا کہ بہت سے لوگ اُس کی تعلیمات میں دلچسپی نہیں بلکہ پھر سے کھانے میں دلچسپی رکھتے تھے۔2 اسی لیے، اُس نے اُن کو ”اُس خوراک کی برتر قدر کے بارے میں آمادہ کرنے کی کوشش کی ”جو ہمیشہ کی زندگی تک باقی رہتی ہے، جسے ابنِ آدم تمہیں دے گا۔3 یسوع نے کہا:

”زندگی کی روٹی میں ہوں۔

”تمہارے باپ دادا نے بیابان میں من کھایا اور مر گئے۔

”یہ وہ روٹی ہے جو آسمان سے اُتری ہے تاکہ آدمی اس میں سے کھائے اور نہ مرے۔

”میں ہوں وہ زندگی کی روٹی جو آسمان سے اُتری: اگر کوئی اِس روٹی میں سے کھائے تو ابد تک زندہ رہے گا: بلکہ جو روٹی میں جہاں کی زندگی کے لیے دوں گا، وہ میرا گوشت ہے۔4

نجات دہندہ جو بات سمجھانا چاہ رہا تھا اُسے سننے والوں نے بالکل نہ سمجھا اور اس بیان کو صرف لفظی طور پر لیا۔ اس سوچ کیپسپائی سےوہ حیران ہوئے کہ ”یہ شخص کیونکر ہمیں اپنا گوشت کھانے کو دے سکتا ہے؟“5 یسوع نے نقطے کی مزید وضاحت کی:

”میں تم سے سچ کہتا ہوں جب تک تم ابن آدم کا گوشت نہ کھاو، اور اُس کا خون نہ پیو، تم میں زندگی نہیں۔

جو میرا گوشت کھاتا اور میرا خون پیتا ہے ہمیشہ کی زندگی اُس کی ہے؛ اور میں اُسے آخری دن پھر زندہ کروں گا۔

کیونکہ میرا گوشت فی الحقیقت کھانے کی چیز اور میرا خون فی الحقیقت پینے کی چیز ہے“6

پھر اُس نے اس تمثیل کے گہرے معنی بیان کیے:

”جو میرا گوشت کھاتا اور میرا خون پیتا ہے وہ مجھ میں قائم رہتا ہے اور میں اُس میں۔

”جس طرح زندہ باپ نے مجھے بھیجا اور میں باپ کے سبب زندہ ہوں؛ اس لیے جو مجھے کھائیگا میرے سبب زندہ رہے گا۔“7

پھر بھی اُس کے سننے والوں نےیسوع کی بات نہ سمجھی اور ”بہت سے… ،جب اُنہوں نے یہ سنا تو کہا، یہ بات ناگوار ہے؛ اِسے کون سن سکتا ہے؟ …[اور] اُس وقت سے اُس کے بہت سے شاگرد اُلٹے پھر گئے، اور اسکے ساتھ نہ رہے8

اُس کا گوشت کھانا اور اُس کا خون پینا، یہ بتانے کا توجہ طلب طریقہ ہے کہ ہمیں نجات دہندہ کو کس طرح اپنی زندگی میں لانا ہے—یعنی اپنی ذات کا حصہ بنانا—اس طرح کہ ہم ایک ہو جائیں۔ ایسا کیونکر ہو سکتا ہے؟

اول، ہم یہ جانتے ہیں کہ اپنے گوشت اور خون کی قربانی دے کر یسوع نے ہمارے گناہوں کا کفارہ دیا اور روحانی اور جسمانی دونوں اموات پر فتح پائی۔9 تو واضع طور پر، جب ہم اُس سے اُس کے کفارے کی قدرت اور برکات حاصل کرتے ہیں تو اُس کا گوشت کھاتے اور اُس کا خون پیتے ہیں۔

مسیح کی تعلیم بتاتی ہےکہ ہمیں اُس کا مخلصی بخش فضل پانے کے لیے کیا کرنا ہے۔ ہمیں یقین کرنا اور مسیح پر ایمان رکھنا، توبہ کرنا ور پپتسمہ پانا اور روح القدس کی نعمت کو پانا ہے،”اور تب آگ اور روح القدس سے تمہارے گناہوں کی معافی ہو گی۔“10 یہی وہ دروازہ ہے، نجات دہندہ کے مخلصی بخش فضل اور تنگ اور سکڑے راستے تک ہماری رسائی جو ہمیں اُس کی بادشاہی تک لے جاتا ہے۔

”سو اگر تم مسیح کے کلام سے سیر ہو کر [اُس راستے پر] آگے بڑھتے رہو، تو دیکھو باپ یوں فرماتا ہے: تم ابدی زندگی پاو گے

”… دیکھو یہی مسیح کی تعلیم ہے اور باپ اور بیٹے اور روح القدس کی واحد اور سچی تعلیم جو خُداے واحد ہےجس کا کوئی آخر نہیں“ 11

خُداوند کی عشائے ربانی کی فسح کی علامت پر غور کرنا نہایت خوبصورت بات ہے۔ روٹی اور پانی اُس کے خون اور گوشت کی علامت ہیں جو زندگی کی روٹی اور زندگی کا پانی ہے،12 یہ ہمیں اُس قیمت کی تلخ یاد دلاتے ہیں جو اُس نے ہماری مخلصی کے لیے ادا کی۔ جب روٹی توڑی جاتی ہے تو یہ ہمیں نجات دہندہ کے مصیبت میں جکڑے ہوئے گوشت کی یاد دلاتی ہے۔ ایلڈر ڈیلین ایچ۔ اوکس نے ایک بارمشاہدہ کیا کہ ”کیونکہ روٹی کا ہرٹکڑا کھینچ کر توڑا جاتا ہے اس لیے ہر ٹکڑا کھانے والے ہر فرد کی طرحمنفرد ہوتا ہے۔ ہم سب کو مختلف گناہوں سے توبہ کرنی ہوتی ہے۔ ہمیں خُداوند یسوع مسیح کے کفارے سے جسے ہم اس رسم میں یاد کرتے ہیں مختلف قسم کی تقویت کی ضرورت ہوتی ہے“13 جب ہم پانی پیتے ہیں، تو ہم اُس کے خون اور اُس کی تقدیسی قوت کے بارے میں سوچتے ہیں جو اُس نے گتسمنی اور صلیب پر بہایا۔14 یہ جانتے ہوئے کہ کوئی ”ناپاک چیز اُس کی بادشاہی میں داخل نہیں ہو سکتی “ ہم یہ تہیہ کرتے ہیں کہ ہم اُن میں سے ہوں گے”جنہوں نے اپنے ایمان اور اپنے تمام گناہوں سے توبہ اور آخر تک وفاداری سے اپنے لباس کو[نجات دہندہ] کے خون میں دھویا ہے“15

میں نے نجات دہندہ کی پُر فضل مخلصی کا ذکر کیا ہے جو ہمارے گناہ اور ہم میں سے اُن گناہوں کے دھبوں کو مٹاتی ہے۔ لیکن علامت کے طور پر اُس کے گوشت کو کھانے اور اُس کے خون کو پینے کا اور بھی گہرا مطلب ہے، اور وہ یہ ہے کہ ہم مسیح کی خوبیاں اورکردار اپنے اندر سمو لیتے ہیں اور”یسوع المسیح کے کفارہ کے ذریعے“16 نفسانی آدمی کو اتار پھنکنا اور مقدس بننا ہے۔ جب ہم ہر ہفتے عشائے ربانی کی روٹی اور پانی میں حصہ لیتے ہیں، تو اچھا ہو گا کہ ہم غور کریں کہ ہم اُس کے کردار اور گناہ سے پاک زندگی کو اپنی زندگی اور ہستی میں کس طرح پورے اور مکمل طور پر شامل کر سکتے ہیں۔ اگروہ خود گناہ سے پاک نہ ہوتا، تو یسوع دوسروں کو گناہوں سے چھڑا نہیں سکتا تھا۔ کیونکہ انصاف کا اُس پر کوئی دعوی نہیں تھا، اس لیے انصاف کی توقعات کو پورا کرنے کے لیے اس نے اپنے آپ کو ہماری جگہ پیش کیا اور پھر ہمیں رحم پہنچایا۔ جب ہم اُس کے مخلصی بخش کفارہ کو یاد کرتے اور اُس کی تعظیم کرتے ہیں، تو ہمیں اُس کی گناہ سے پاک زندگی پر غور بھی کرنا چاہیے۔

یہ ہمارے حصہ کی زبردست کوشش کرنے کی ضرورت کی تجویز دیتی ہے۔ ہمیں اپنی موجودہ صورتِ حال میں مطمئین نہیں رہنا چاہیے بلکہ مستقل طور ”مسیح کے پورے قد کے اندازہ تک پہنچنے“17 کے لیے آگے بڑھتے رہنا چاہیے۔ مورمن کی کتاب میں لمونی بادشاہ کے باپ کی طرح ہمیں اپنے تمام تر گناہ 18 چھوڑنے کے لیے رضامند اورانفرادی اور اجتماعی طور پر خُداوند کی توقعات پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔

کچھ دیر پہلے، میرے ایک دوست نے مجھےاپنا تجربہ بتایا جب وہ مشن کے صدر کے طور پر خدمت کر رہا تھا۔ اُس کا آپریشن ہوا تھا جس کے بعد صحت یابی کے لیے کئی ہفتے درکار تھے۔ اُس دوران اُس نے اپنا وقت صحائف کے مطالعے میں صرف کیا۔ ایک دوپہر 3 نیفی کے 27ویں باب  میں لکھے نجات دہندہ کے الفاظ پر غور کرتے ہوئے وہ سو گیا۔ بعد میں اُن نے بتایا:

مجھے ایک خواب آیا جس میں مجھے اپنی زندگی کا واضع اور مکمل منظر دکھایا گیا۔ مجھے اپنے گناہ، غلط فیصلے، وہ وقت…جب میں نے لوگوں سے بے صبری برتی، اور وہ اچھی باتیں جو مجھے کہنی یا کرنی چاہیے تھی جو میں نے نہیں کیں، دکھائی گئیں۔ …اپنی زندگی [ایک] وسیع [جائزہ] مجھے چند ہی منٹوں میں دکھایا گیا، لیکن یہ بہت زیادہ وقت لگ رہا تھا۔ میں جاگا، چونک کر اٹھا…فورا اپنے بستر کے پاس گھٹںے ٹیکے اور دعا کرنا شروع کی، میں نے معافی کے لیے منت کی اور اپنے دلی احساسات کو دعا میں ایسے رکھا جیسے پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔

”اس خواب سے پہلے، مجھے اندازہ نہیں تھا کہ مجھے توبہ کرنے کی اس قدر ضرورت [تھی]۔ اچانک میری غلطیاں اور کمزوریاں میرے لیے اتنی واضع ہو گئیں کہ اپنے اور خُدا کی قدوسیت اور بھلائی میں فاصلہ لاکھوں میل [لگنے] لگا۔ اُس دوپہر اپنی دعا میں، میں نے اپنے پورے دل سے آسمانی باپ اور نجات دہندہ کا گہرے طور پر شکر ادا کیا اس سب کیلئے جو انہوں نے میرے لئے کیا تھا اور میرے بیوی اور بچوں کے ساتھ قیمتی تعلق کے لیے ۔ جب میں اپنے گھٹنوں پر تھا تو میں کے خُدا کے پیار اور رحم کو بھی محسوس کیا جو میرے گناہگار ہونے کے باوجود محسوس کیا جا سکتا تھا …

میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اُس دن سے میں پہلے جیسا نہیں رہا۔ …میرا دل تبدیل ہو گیا۔ …اس کی بعد یہ ہوا کہ میں نے دوسروں کے لیے مزید ہمدردی محسوس کرنا شروع کی، اور انجیل کی منادی میں جلدی کی اہمیت کے ساتھ، پیار کرنے کی قابلیت میں اضافہ بھی پایا۔ میں مورمن کی کتاب میں پائے جانے والے ایمان، امید، اور توبہ کی نعمت کے پیغامات کو یوں سمجھنے لگا [جیسے] پہلے کبھی نہیں سمجھے تھے۔19

یہ پہچاننا ضروری ہے یہ اچھا آدمی اپنے گناہوں اور خامیوں کا واضع مکاشفہ پانے کے بعد مایوس اور نا امید نہیں ہوا۔۔ ہاں، وہ چونکا اور پشیمان ضرور ہوا۔ لیکن اُسے شدید توبہ کرنے کا احساس ہوا۔ اُسے فروتن کیا گیا تھا پھر بھی اس نےیسوع مسیح جو کہ ”زندگی کی وہ روٹی ہے جو آسمان سے اُتری ہے“ 20 اُس کے سبب سے شکرگزاری، سلامتی اور امید—اصل امید— محسوس کی۔

میرے دوست نے اُس فاصلے کا ذکر بھی کیا جو اُس نے اپنے خواب میں اپنی زندگی اورخُدا کی قدوسیت کے درمیان دیکھا تھا۔ قدوسیت درست لفظ ہے۔ مسیح کاگوشت کھانے اور خون پینے سے مراد قدوسیت کے خوایاں ہونا ہے۔ خُدا حکم دیتا ہے،”پاک ہو اس لیے کہ میں پاک ہوں“21

حنوک ہمیں مشورت دیتا ہے”اپنے بچوں کو سکھاو کہ ہر شخص کو ،ہر جگہ، توبہ کرنی جاہیے، ورنہ وہ خُدا کی بادشاہی کے وارث نہیں ٹھہر سکتے، کیونکہ کوئی ناپاک چیز وہاں ٹھہر نہیں سکتی؛ یا اُس کی حضوری میں ٹھہر نہیں سکتی، کیونکہ آدم کی زبان میں، خُدا کا نام قدوس آدم ہے، اور اُس کے اکلوتے بیٹے کا نام ابن آدم، یسوع مسیح ہے۔“22 جب میں چھوٹا ہوتا تھا، تو میں سوچتا تھا کہ یسوع کو نئے عہد نامے میں اکثر ابن آدم کیوں کہا جاتا تھا [اور وہ خود بھی اپنے آپ کو] ابن آدم کیوں کہتا تھا، جب کہ وہ حقیقت میں خُدا کا بیٹا تھا، لیکن حنوک کا بیان واضع کرتا ہے کہ یہ حوالہ جات اُس کی الوہیت اور قدوسیت کی پہچان کے لیے ہیں—وہ قدوسیت کے آدمی، خُدا باپ کا بیٹا ہے۔

اگر ہم مسیح میں بسنے اور اپنے آپ میں مسیح کو بسانے کی خواہش رکھتے ہیں 23 تو ہمیں جسم اور روح دونوں کی قدوسیت کے متلاشی ہونا ہے۔24 ہم اس کی تلاش ہیکل میں کر سکتے ہیں، جس پر ”خداوند کے لیے قدوسیت“تحریر ہے۔ ہم شادی کےبندھن، خاندانوں اور اپنے گھروں میں اِس کے خواہاں ہیں۔ ہم اس کی تلاش ہر ہفتے خُداوند کے مقدس دن کی خوشی منا کر کرتے ہیں۔25 ہم اپنی روزمرہ کی زندگی میں: اپنی گفتگو، لباس اور سوچ میں اس کے خواہاں ہوتے ہیں۔ جیسا صرد تھامس  ایس۔ مانسن نے کہا ہے”ہم جو کچھ پڑھتے ہیں، کو کچھ دیکھتے ہیں، جو کچھ سنتے ہیں اور جو کچھ بھی سوچتے ہیں، ویسے ہی بن جاتے ہیں“26 قدوسیت کی تلاش میں اپنی صلیب روزانہ اٹھانا .27

بہن کیرل  ایف۔ مکانکی نے مشاہدہ کیا: ”ہم جانتے ہیں کہ امتحانوں، آزمائشوں اور مشکلوں کے ہجوم ہمیں اُن تمام چیزوں سے دور لے جا سکتے ہیں جو خُدا کے حضور نیک اور قابلِ ستائش ہیں۔ لیکن ہماری فانی زندگی کے تجربات ہمیں قدوسیت کا انتخاب کرنے کے مواقعے فراہم کرتے ہیں۔ ذیادہ تر اپنے عہود پر قائم رہنے کے لیے دی جانے والی قربانیاں ہی ہمیں پاک کرتی اور مقدس بناتی ہیں“28 اپنی ”دی ہوئی قربانیوں “کے ساتھ میں خدمت گزاری کا اضافہ بھی کرنا چاہتا ہوں۔

ہم جانتے ہیں کہ ”جب [ہم]اپنے ہمسائے کی خدمت کر رہے ہوتے ہیں تو [ہم] فقط اپنے خُدا کی خدمت کر رہے ہوتے ہیں“29 اور خُداوند ہمیں یاد دہانی کرواتا ہے کہ یہی خدمت اُس کی زندگی اور کردار کامرکز ہے۔ ”کیونکہ ابن آدم اس لیے نہیں آیا کہ خدمت لے، بلکہ اس لیے کہ خدمت کرے اور اپنی جان بتہیروں کے لیے فدیہ میں دے”30 صدر میرین  جی۔ رامنی ہمیں دانشمدانہ مشورت دیتے ہیں: خدمت کوئی ایسی چیز نہیں جس کے اس زمین پر انجام دیے جانے سے ہمیں سیلیسٹئیل بادشاہی میں رہنے کا حق مل جائے گا۔ خدمت ہی وہ ریشه ہے جس سے سیلیسٹئل بادشاہی میں سرفزاری کی زندگی بُنی گئی ہے۔31

زکریا نے نبوت کی کہ خُداوند کی ہزار سالہ بادشاہی کے دنوں میں، گھوڑوں کے گلوں کی گھنٹیوں پر بھی مرقوم ہو گا ”خُداوند نے لیے قدوسیت“32 اُسی روح میں، ان وادیوں کے اولین آباد کاروں نے یہ یاد دہانی کیلئے”خُداوند کے لیے قدوسیت“ ہرعام استعاملاستعمال کی چیزوں اور مذہبی رسوم سے منسلک اشیاء پر تحریر کیں۔ یہ عشائے ربانی کے پیالوں اور پلیٹوں اور ستر کی تقرری کی اسناد اور ریلیف سوسائٹی کے پرچم پرلکھا گیا تھا۔ ”خُداوند کے لیے قدوسیت“ ZCMI ڈپارٹمنٹ اسٹور یعنی صیون کے کوآپریٹو مرکنٹیل انسٹیٹیوشن کی کھڑکیوں پر بھی لکھا ہوا تھا۔ ہتھوڑی کے سر اور ڈھول پر بھی لکھا ہوا تھا۔ صدر بریگم ینگ کے گھر کے دروازوں کے دستوں پر بھی ”خُداوند کے لیے قدوسیت“ کندہ کیا گیا تھا۔ غیر معمعولی اور غیر متقوقع جگہوں پر قدوسیت کا حوالہ کچھ لوگوں کو بے میل لگتا ہو گا، لیکن اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہمیں قدوسیت پر توجہ اور زندگی کے ہر حصے میں سرایت کی کتنی ضرورت ہے۔

شبیہ
ساکرامنٹ کا کپ
شبیہ
ساکرامنٹ کی پلیٹ
شبیہ
ZCMI سامان والی کھڑ کی
شبیہ
ہتھوڑی
شبیہ
ڈھول
شبیہ
دروازے کی ہتھی

نجات دہندہ کا گوشت کھانے اور خون پینےسے مراد ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں سے ہر ایسی چیز کو دور کریں جو مسیحی کردار سے مطابقت نہیں رکھتی اور اُس کی صفات کو اپنی صفات بنائیں۔ یہ توبہ کے وسیع تر معنی ہیں: نہ صرف ماضی کے گناہوں سے دور ہونا بلکہ آگے بڑھتے ہوئے”اپنے دل اور مرضی، خُدا کی جانب پھیرنا“33 جیسا کہ میرےدوست کے مکاشفہ بخش خواب میں ہوا، خُدا ہمیں ہماری خطائیں اور کمزوریاں دکھائے گا لیکن وہ ہماری مدد بھی کرے گا کہ کمزوریوں کو مضبوطیوں۔ 34 میں بدل دیں۔ اگر ہم سنجیدگی سے پوچھیں، ”مجھ میں کیا کمی ہے؟“35 تو وہ ہمیں چھوڑ نہیں دے گا کہ اندازے لگاتے رہیں، لیکن وہ پیار سے ہماری خوشی کے لیے ہمیں جواب دے گا۔ اور وہ ہمیں امید بھی دے گا۔

یہ سہی تھکا دینے والی اور اگر ہم قدوسیت پانے کے لیے تنہا ہوں تو انتہائی حوصلہ شکن مشق بھی ہے۔ جلالی سچائی یہ ہے کہ ہم تنہا نہیں ہیں۔ ہمارے پاس خُدا کی محبت، مسیح کا فضل، روح القدس کی تسلی اور رہنمائی، اور مسیح کے جسم میں ہم عصر مقدسین کی رفاقت اور حوصلہ افزائی موجود ہے۔ آئیں ہم اپنے موجودہ مقام پر ہی مطمئن نہ ہو جائیں اور نہ ہی اس سے مایوس ہوں۔ جیسا کہ سادہ لیکن پُر تفکر گیت ہماری حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

قدوس ہونے کے لیے وقت نکالو، دنیا چلتی رہے گی؛

پوشیدگی میں مسیح کے ساتھ تنہا زیادہ وقت گزاریں۔

مسیح پر نظر مرکوز کر کے، تم اُس جیسے بن جاو گے؛

تمہارے دوست تمہارے روئیے میں اُس کی شبیہ دیکھیں گے۔.36

میں یسوع مسیح کی گواہی دیتا ہوں”زندگی کی روٹی جو آسمان سےاُتری“37 اور ”جو کوئی [اُس کا] گوشت کھاتا اور [اُس کا] خون پیتا ہے، اُس میں ابدی زندگی ہے“38 یسوع مسیح کے نام سے آمین۔