صحائف
۲ نِیفی ۳۲


باب ۳۲

فرِشتے رُوحُ القُدس کی قُدرت سے کلام کرتے ہیں— ضرُور ہے کہ لوگ دُعا کریں اور اپنے لِیے رُوحُ القُدس سے عِلم پائیں۔ قریباً ۵۵۹–۵۴۵ ق۔م۔

۱ اور اب، دیکھو، میرے پیارے بھائیو، مُجھے اندازہ ہے کہ اِس راستے پر آنے کے بعد تُم اپنے اپنے دِل میں کسی قدر اِس کی بابت سوچ بچار کرتے ہو کہ تُم کو کیا کرنا چاہیے۔ بہرکیف، دیکھو، کیوں تُم اپنے دِلوں میں اِن باتوں پر سوچ بچار کرتے ہو؟

۲ کیا تُمھیں یاد نہیں کہ مَیں نے تُم سے کہا تھا کہ رُوحُ القُدس پانے کے بعد تُم فرِشتوں کی سی بولی بول سکو گے؟ اور اب، رُوحُ القُدس کے وسِیلے کے بغیر تُم کیسے فرِشتوں کی سی بولی بول سکتے ہو؟

۳ رُوحُ القُدس کی قُدرت سے فرِشتے بولتے ہیں؛ پَس، وہ مسِیح کے کلام کا ذِکر کرتے ہیں، پَس، مَیں نے تُم سے کہا، مسِیح کے کلام پر ضیافت مناؤ؛ کیوں کہ دیکھو، مسِیح کا کلام تُمھیں وہ ساری باتیں بتائے گا جو تُمھیں انجام دینی ہیں۔

۴ پَس، اب جب مَیں یہ باتیں بتا چُکا اور اگر تُم اِنھیں سمجھ نہیں پاتے تو اِس کا سبب یہ ہے کہ تُم نہ مانگتے ہو، نہ تُم کھٹکھٹاتے ہو؛ پَس، تُم نُور میں نہیں لائے جاتے، بلکہ اندھیرے میں ضرُور ہلاک ہو گے۔

۵ پَس دیکھو، مَیں تُم سے پھر کہتا ہُوں کہ اگر تُم اِس راستے پر آ جاؤ گے، اور رُوحُ القُدس پاؤ گے تو یہ تُمھیں وہ سب باتیں بتائے گا جو تُمھیں کرنی ہیں۔

۶ دیکھو، یہی مسِیح کی تعلیم ہے، اور جب تک وہ مُجسّم ہو کر اپنے تئیں تُم پر ظاہر نہ کرے گا اُس وقت تک مزید کوئی تعلیم نہ دی جائے گی۔ اور جب وہ مُجسّم ہو کر اپنے تئیں تُم پر ظاہر کرے گا تو جو باتیں وہ تُم سے کہے گا تُم اُن پر عمل کرنا۔

۷ اور اب مَیں، نِیفی، مزید کُچھ نہیں کہہ سکتا؛ رُوح مُجھے بات کرنے سے روکتا ہے، اور مَیں اِنسان کی بے اعتقادی، اور بدکاری، اور جہالت، اور سرکشی کے باعث صِرف ماتم کرنے کے لِیے رہ گیا ہُوں؛ چُناں چہ وہ عِلم کی جُستجُو نہ کریں گے، نہ عِلمِ جلِیل کا فہم پائیں گے، اگرچہ اُن کے واسطے یہ صراحت کے ساتھ عطا کِیا گیا ہے، یعنی اِس قدر صریحاً کلام جِس قدر مُمکن ہو سکتا ہے۔

۸ اور اب، میرے پیارے بھائیو، مُجھے اِدراک ہے کہ تُم اب تک اپنے دِلوں میں خیال کرتے ہو؛ اور اِس سے مَیں رنجیدہ ہوتا ہُوں چُناچہ مُجھے اِس بات کے متعلق ضرُور کلام کرنا چاہیے۔ کیوں کہ اگر تُم رُوح کی بات غور سے سُنتے ہو جو اِنسان کو دُعا کرنا سِکھاتا ہے تو تُمھیں عِلم ہوگا کہ تُمھارا دُعا کرنا لازم ہے؛ کیوں کہ بد رُوح اِنسان کو دُعا کرنا نہیں سِکھاتا، بلکہ اُس کو سِکھاتا ہے کہ بالکل دُعا نہ کرے۔

۹ بلکہ دیکھو، مَیں تُم سے کہتا ہُوں ضرُور ہے کہ تُم ہمیشہ دُعا کرو، اور ہمت نہ ہارو؛ کہ تُم خُداوند کے سامنے کوئی اَیسا کام نہ کرو جب تک کہ تُم پہلے باپ سے مسِیح کے نام میں دُعا نہ مانگ لو، تاکہ وہ تُمھاری مشقت کو تُمھارے واسطے مُبارک کرے، کہ تُمھاری مشقت تُمھاری جان کی بھلائی کے لِیے ہو۔