۲۰۱۰–۲۰۱۹
یہ سب عوام الناس کے لیے ہے
اپریل ٢٠١٨


یہ سب عوام الناس کے لیے ہے

کلیسیا آپ سب کے لیے ہے، خُداوند کے شاگردو—جو اُس کو پیار کرتے اور اُس کی پیروی کرتے ہو اور جنھوں نے اُس کا نام اپنے اُوپر لے لیا ہے۔

جب فرانس کے شہر پیرس میں شاندار ہیکل کی تعمیر ہو رہی تھی تو مجھے ناقابلِ فراموش تجربہ ہُوا ۔ ۲۰۱۰ میں ہیکل کے لیے زمین مل گئی، شہر کے مئیر نے کلیسیا کے بارے میں مزید معلومات پانے کی خاطر ملاقات کی دعوت دی۔ یہ ملاقات تعمیراتی اِجازت نامہ حاصل کرنے کے حوالے سے اِنتہائی اہم قدم تھا۔ ہم نے بڑی باریک بینی سے رپورٹ تیار کی جس میں مقدسینِ آخری ایام کی ہیکلوں کی جاذبِ نظر تصاویر شامل کیں۔ مجھے بڑی آس تھی کہ اِن کا خوب صورت فنِ تعمیر مئیر کو ہمارے منصوبے کے حق میں قائل کر لے گا۔

مجھے حیرانی ہُوئی، جب مئیر نے اِس بات کا اظہار کیا کہ ہماری رپورٹ کا جائزہ لینے کی بجائے بہتر یہ ہوگا کہ وہ اور اُس کی ٹیم خود تفتیش کریں کہ ہم کس قسم کی کلیسیا ہیں۔ اگلے مہینے، ہمیں شہر کے کونسلر کی طرف سے جواِتفاق سے مذہبی تاریخ کا پروفیسر بھی تھا، تیار کردہ رپورٹ کو سننے کے لیے واپس بُلایا گیا۔ اُس نے کہا، ”سب سے پہلے، ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کی کلیسیا کے لوگ کون ہیں۔ پہلے، ہم نے آپ کی عشائے ربانی کی عبادت میں شامل ہُوئے۔ ہم چرچ میں بالکل پیچھے بیٹھے تھے اور بڑے غور سے لوگوں کا جائزہ لے رہے تھے کہ وہ کیا کر رہے تھے۔ پھر ہم آپ کے ہمسائیوں سے ملے—اُن سے جو آپ کی میخوں کے اِردگرد رہتے ہیں— اور اُن سے دریافت کیا کہ یہ مورمن کس قسم کے لوگ ہیں۔“

”سو آپ نے کیا نتیجہ نکالا؟“ میں نے قدرے بے تابی سے پوچھا۔ اُس نے جواب دیا، ”ہمیں یہ اِنکشاف ہُوا کہ کلیسیائے یِسُوع مِسیح برائے مقدسینِ آخری ایام مِسیح کی اصلی کلیسیا کے قریب ترین ہے بہ نسبت کسی دوسری کلیسیا کے جس کے بارے میں ہم جانتے ہیں۔“ میں نے تقریباً اِس کی تردید کرتے ہُوئے کہا، ”یہ پور ی طرح درست نہیں ہے! یہ ایسی کلیسیا نہیں جو قریب ترین ہے؛ یہی یِسُوع مِسیح کی کلیسیا ہے—وہی کلیسیا، سچی کلیسیا!“ لیکن میں نے اپنے آپ کو روکا اوراِس کی بجائے خاموشی سے دُعا ئے تشکر مانگی۔ پھر مئیر نے ہمیں تجویز دی کہ اُن کی حاصل شُدہ معلومات کی بُنیاد پر اُسے اور اُس کی ٹیم کو اُن کے علاقے میں ہیکل کی تعمیر پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

آج، جب میں اُس معجزانہ تجربے کے بارے میں سوچتا ہوں، تو میں مئیر کی دانش مندی اور فہم وفراست کا مشکور ہوتا ہُوں۔ وہ یہ بات جان گیا تھا کہ کلیسیا کو سمجھنے کے لیے اِس کی عمارتوں کی ظاہری خوب صورتی یا کہ بحیثیت اِنتہائی منظم اِدارہ بُنیادی نکتہ نہیں بلکہ اِس کے لاکھوں اِیمان دار اَرکان ہیں، جو ہر روز یِسُوع مِسیح کے نمونہ پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔

کلیسیا کی تعریف مورمن کی کتاب میں بیان کردہ اِس حوالے سے اَخذ کی جا سکتی ہے، ” اور جنھوں [معنی خُداوند کے شاگرد] نے یِسُوع کے نام پر بپتسمہ پایا وہ مِسیح کی کلیسیا کہلائے۔“۱

دوسرے لفظوں میں، کلیسیا ساری کی ساری عوام الناس کے لیے ہے۔ کلیسیا آپ سب کے لیے ہے، خُداوند کے شاگردو—جو اُس کو پیار کرتے اور اُس کی پیروی کرتے ہو اور جنھوں نے عہد کے وسیلے سے اُس کا نام اپنے اُوپر لے لیا ہے۔

صدر رسل ایم نیلسن نے ایک دفعہ کلیسیا کو عمدہ گاڑی سے تشبیہ دی تھی۔ جب ہماری گاڑی صاف اور چمک رہی ہوتی ہے ہم سب پسند کرتے ہیں۔ لیکن گاڑی کا یہ مقصد نہیں ہے کہ دل کش مشین کی طرح نمایاں نظر آئے؛ اِس کا کام لوگوں کومنتقل کرنا ہے۔۲ بالکل اِسی طرح، ہم ، کلیسیا کے اَرکان ہوتے ہُوئے، خوب صورت اور صاف ستھری عبادت گاہوں کو سراہتے ہیں، اورہم اِس کے کارآمد نظام سے بھی مستفید ہوتے ہیں۔ لیکن یہ صرف معاونت فراہم کرنے والے بندوبست ہیں۔ ہم کُلیدی مقصد خُدا کے ہر بیٹے اور ہر بیٹی کو مِسیح کے پاس آنے کی دعوت دیتا اور اُن کو عہد کے راستے پر چلنے میں مدد کرنا ہے۔ اِس سے زیادہ اور کوئی اہم کام نہیں۔ ہمارا سارے کا سارا کام عوام اور عہود لے لیے ہے۔

ہے نا یہ حیران کن بات کہ مکاشفہ کے وسیلے سے بحال شُدہ کلیسیا کو ملنے والا نام دو اہم عناصر کو اِنجیل کے ہر عہد کے ساتھ باندھتا ہے؟ پہلا یِسُوع مِسیح کا نام ہے۔ یہ کلیسیا اُس کی ہے، اور اُس کا پا ک کرنے والا کفارہ اور عہود واحد راستہ ہے جو نجات اور سرفرازی کی طرف جاتا ہے۔ دوسرے نام سے مراد ہم : مقدسین ہیں، یا بہ الفاظِ دیگر، اُس کے شاگرد اور اُس کے شاہد۔

میں فرانس میں صدر المیخ کی حیثیت سے خدمت نبھا رہا تھا جب میں نےعوام پر توجہ دینے کی اَہمیت کے بارے میں سیکھا۔ میری خدمت کی اِبتدا میں میخ کے واسطے میرے بڑے بُلند مقاصد تھے: نئی وارڈز کی تخلیق، نئی عبادت گاہوں کی تعمیر، اور یہاں تک کہ اپنے علاقے میں ہیکل کی تعمیر۔ جب چھے برس بعد میں برخاست ہُوا، اُن میں سے ایک بھی مقصد پایہ تکمیل کو نہ پہنچا۔ اِس کو مکمل ناکامی تصور کیا جا سکتا تھا، سوائے اِس بات کے، اِن چھے برسوں کے دوران میں، میرے مقاصد بدل چکے تھے۔

جس روز مجھے سُبک دوش ہونا تھا، میں بیٹھا تھا کہ میرے اندر کامیابی اور شکر گزاری کا احساس پیدا ہُوا۔ میں جماعت میں بیٹھے سیکڑوں اَرکان کے چہروں کو دیکھا۔ میں ہر ایک سے جُڑے رُوحانی تجربے کو یاد کر سکتا تھا۔

اُن میں بعض ایسے بہن بھائی تھے جنھوں نے بپتسمہ پایا تھا، اُن میں وہ بھی تھے جن کے لیے ہیکل کے پہلے اِجازت نامے پر میں دستخط کیے تھے تاکہ وہ ہیکل کی مقدس رسومات پا سکیں ، اور ایسے نوجوان اور بالغ جوڑے بھی تھے جن کو کل وقتی مبلغین کی حیثیت سے مخصوص کیا تھا یا پھر برخاست کیا تھا۔ اُن میں بہت سے ایسے تھے جن کی میں نے خدمت کی تھی جب وہ زندگی کے کٹھن اور تکلیف دہ آزمایشوں سے گزر رہے تھے۔ میں نے ہر ایک کے واسطے برادرانہ اُلفت کو بڑی شدت سے محسوس کیا۔ اُن کی خدت کرکے مجھے سچی خوشی ملتی تھی اور نجات دہندہ کے لیے اُن کے اِیمان کی کثرت اور وفاداری کو دیکھ کر میں شادمان ہوتا تھا۔

صدر ایم رسل بیلرڈ نے سیکھایا ، ”ہماری کلیسیائی ذُمہ داریوں سے سب سے اہم اعداد وشمار کی رپورٹس نہیں ہیں جو جمع کراتے ہیں یا میٹنگز جو منعقد تو ہوتی ہیں لیکن فرداً فرداً لوگوں— کو نجات دہندہ کی مانند الگ الگ خدمت فراہم نہ کی جاتی ہو—کیا حوصلہ اَفزائی ہوئی اور تقویت و تسلی دی گئی اور آخر کار تبدیلی آئی۔“۳

میرے پیارے بھائیو اور بہنو، کیا ہم اِنجیل میں سرگرم ہیں، یا کلیسیا میں بس مصروف ہیں؟ بُنیادی نقطہ یہ ہے کہ ہم نجات دہندہ کے نمونے کو ہر بات میں اپنائیں۔ اگر ہم ایسا کرتے ہیں، اَمور کی تکمیل اور نظام کے اِطلاق کی بجائے ہماری توجہ افراد کی نجات پر ہوگی۔

کبھی آپ نے اپنے آپ سے یہ سوال پوچھا ہے کہ اگر نجات دہندہ اگلے اِتوار کو آپ کی شاخ میں آتا ہے تو کیسا لگے گا۔ وہ کیا کرے گا؟ کیا اُسے اِس بات کی فکر ہوگی کہ بصری معاونت کارآمد ہے یا کلاس روم میں کرسیاں ترتیب سے لگائی گئی تھیں؟ یا وہ کسی کو ڈھونڈے گا جسے وہ سکھائے، برکت دے، اور پیار کرسکے؟ شاید وہ کسی نئے رکن کو ڈھونڈے گا یا کسی دوست کا خیر مقدم کرے گا، کسی بیمار بہن یا بھائی کی تیمارداری کرے گا، یا کسی کشمکش میں مبتلا نوجوان کی ڈھارس بندھائے گا اور تسلی دے گا۔

یِسُوع کون سی جماعتوں کا معائنہ کرے گا؟ مجھے کوئی حیرانی نہیں ہوگی اگر وہ سب سے پہلے بچوں کی پرائمری میں جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے وہ گھٹنے ٹیک کر اُن کی آنکھوں میں جھانکتے ہُوئے اُن سے بات کرے۔ وہ اُن سے پیار کرے گا، تمثیلیں بتائے گا، اُن ڈرائینگ دیکھ کر اُنھیں شاباش دے گا، اور اپنے آسمانی باپ کی گواہی دے گا۔ اُس کا رونہ سادہ ، پُرخلوص، اور بناوٹ کے بغیر ہوگا۔ کیا ہم ایسا کرسکتے ہیں؟

میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ اگر ہم خُداوند کی حکمتِ عملی کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں، تو پھراُن کو ڈھونڈنا جن کی آپ مدد کرسکتے اور برکت دے سکتے ہیں اِس بات سے بڑھ کر پھر اور کچھ نہیں۔ کلیسیا میں آپ افراد کی تعلیم پر توجہ دیں گے اور اُن کے دلوں کو چھوئیں گے۔ آپ کی توجہ کسی کامیاب سرگرمی کے انعقاد کی بجائےروحانی تجربے کی پرورش پر ہوگی، ذمہ داریوں کی فہرست کے سامنے چیک کا نشان لگانے کی بجائے کسی رکن کی خدمت گزاری پر ہوگی۔ اِس کا مرکز آپ نہیں ہوں گے بلکہ وہ ہوں گے جن کو ہم اپنے بھائی اور بہن کہتے ہیں۔

بعض اوقات ہم چرچ جانے کی بات کرتے ہیں۔ لیکن چرچ عمارت یا خاص جگہ سے بڑھ کر ہے۔ یہ دُنیا کے دُور دراز علاقوں کے اِنتہائی غربت زدہ جھونپڑوں میں بھی اُسی طرح جاری و ساری ہے جس طرح سالٹ لیک میں کلیسیا کے مراکز میں جاری و ساری ہے۔ خُداوند نے خُود فرمایا ہے، ” کیونکہ جہاں دو یا تین میرے نام پر اکٹھے ہیں وہاں میں اُن کے بیچ میں ہُوں۔“۴

ہم جہاں جاتے ہیں کلیسیا کو اپنے ساتھ لے کر جاتے ہیں: روزگار پر، سکول میں، چُھٹیوں پر، اور خاص طور پر گھروں میں۔ ہم جہاں کہیں بھی ہوتے ہیں اُس مقام کو جائے مقدسہ بنانے کے لیے وہاں ہماری موجودگی اور تاثیر کافی ہوتی ہے۔

مجھے وہ گفتگو یاد ہے جو میرے کسی دوست سے ہُوئی جو ہمارے دین کا نہیں تھا۔ اُس کو یہ جان کر حیرانی ہُوئی تھی کہ ہماری کلیسیا میں ہر لائق مرد کہانت پا سکتا ہے۔ اُس نے پوچھا، ”مگر تمھاری وارڈ میں کتنے کہانت بردار ہیں؟“

میں نے جواب دیا، ”۲۰ اور ۳۰ کے درمیان۔“

وہ پریشان ہوگیا، اُس نے کہا، ”میری جماعت میں تو ہمارے پاس صرف ایک کاہن ہے۔ اِتوار کے روز تمھیں اِتنے سارے کاہنوں کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟“

اُس کے سوال سے متجسس ہو کر، میرے اندر جواب دینے کا احساس جاگا، ”میں تم سے متفق ہُوں۔ میرا نہیں خیال کہ ہمیں اِتوار کے روز اتنے کہانت کے حاملین کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن ہمیں ہر گھر کے لیے ایک کہانت بردار کی ضرورت پڑتی ہے۔ اور جب کسی گھر میں کہانت نہیں ہوتی، اُس گھر کی خدمت اور نگہبانی کے لیے کسی اور کہانت کے حامل کو بُلایا جاتا ہے۔“

ہماری صرف اِتوار کی کلیسیا نہیں ہے۔ ہماری پرستش ہفتے کے ہر روز جاری و ساری رہتی ہے، ہم جہاں کہیں بھی ہوں اور جو کچھ بھی ہم سرانجام دے رہے ہوں۔ خاص طور پر ہمارے گھر ”ہمارے اِیمان کی اِبتدائی جائے مقدسہ ہیں۔“۵ عام طور پر ہمارے گھر ہی ہیں جہاں ہم دُعا کرتے ہیں ، ہم برکت مانگتے ہیں، ہم مطالعہ کرتے ہیں، ہم خُدا کا کلام پڑھتے ہیں، اور سچی محبت سے خدمت کرتے ہیں۔ میں اپنے ذاتی تجربے کی بُنیاد پر گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے گھر مقدس گاہیں ہیں جہاں رُوح بستا ہے—بڑی کثرت سے، اور بعض اوقات ہماری باقاعدہ عبادت گاہوں سے بھی زیادہ۔

میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ کلیسیا یِسُوع مِسیح کی کلیسیا ہے۔ اَس کو تقویت اور زندگی اُن لاکھوں خُداوند کے شاگردوں کے روز مرہ کے اعمال سے ملتی ہے جو اُس کے اعلیٰ نمونے کی پیروی کرتے ہُوئے ہر روز دوسروں کی نگہبانی کرتے ہیں۔ مِسیح زندہ ہے اور اِس کلیسیا کی نگرانی کرتا ہے۔ صدر رسل ایم نیلسن جن کو خُداوند نے چُنا لیا ہے کہ ہمارے زمانے میں ہدایت اور راہ نمائی فرمائیں۔ اِن سچائیوں کی میں یسوع مسیح کے نام پرگواہی دیتاہوں۔