مجلسِ عامہ
غضب ناک نااِنصافی
مجلسِ عامہ اپریل ۲۰۲۱


غضب ناک نااِنصافی

یِسُوع مسِیح نااِنصافی کو سمجھتا ہے اور مرہم فراہم کرنے کی قُدرت رکھتا ہے۔

سن ۱۹۹۴ میں، مشرقی افریقی ملک روانڈا میں نسل کشی ہوئی تھی جو جزوی طور پر گہرے قبائلی تناؤ کی وجہ سے تھی۔ ایک اَندازے کے مُطابق پانچ لاکھ سے زائد لوگ ہلاک ہوئے تھے۔۱ قابلِ ذِکر بات یہ ہے کہ روانڈا کے عوام نے بڑے پیمانے پر صلح و سلامتی کی طرف آ گئے ہیں،۲ لیکن یہ واقعات بار بار سر اُٹھاتے رہتے ہیں۔

ایک دہائی قبل، روانڈا کے سفر کے دوران میں، مَیں اور میری اَہلیہ نے کِگالی ہوائی اڈے پر کسی اور مسافر کے ساتھ گفتگو کی۔ اُنھوں نے نسل کشی کے غیر مُنصفانہ ہونے پر اَفسوس کا اِظہار کیا اور شائستہ طور پر پوچھا، ”اگر کوئی خُدا ہوتا تو کیا وہ اِس کے بارے میں کچھ نہ کرتا؟“ اِس شخص کے لیے—اور ہم میں سے بہت سارے لوگوں کے لیے، مُصیبت زدہ اور وحشیانہ ناانصافی کوئی شفیق، پیار کرنے والے آسمانی باپ کی حقیقت سے مُطابقت نہیں رکھتی ہے۔ پھر بھی وہ حقِیقت ہے، وہ مہربان ہے، اور وہ اپنے ہر ایک بچے سے کامِل محبت کرتا ہے۔ یہ تقسیم اِتنی قدیم ہے جتنی بنی نوع اِنسان ہے اور ایک جملے یا بمپر سٹیکر سے واضح نہیں کی جا سکتی۔

اِس کے بارے میں کچھ اِدراک پانے سے پہلے، آئیے ہم مُختلف قسم کی نااِنصافیوں پر نظر دوڑاتے ہیں۔ کسی اَیسے خاندان پر غَور کریں جس میں ہر بچے کو عام طور پر گھریلو کام کرنے کا ہفتہ وار معاوضہ مِلتا ہو۔ بیٹے، جان، نے ٹافی خِریدی؛ بیٹی آنا، نے اپنے پیسوں کی بچت کر لی۔ بالآخر، آنا نے اپنے لیے سائیکل خِریدی۔ جان نے سوچا کہ یہ تو سراسر زیادتی ہے کہ آنا کو سائیکل مِل گئی اور مُجھے نہیں۔ بلکہ جان کے اپنے افعال نے عدمِ مساوات پَیدا کر دی تھی، والدین کے اعمال نے نہیں۔ فوری تسکین کے لیے آنا کا ٹافی نہ کھانے کا فیصلہ جان کے لیے نااِنصافی کا سبب نہ تھا کیوں کہ اپنی بہن کی طرح اُسے بھی مساوی موقع مِلا تھا۔

ہمارے فیصلے اِسی طرح دُور رس فوائد یا نقصانات کا سبب ہوسکتے ہیں۔ جَیسا خُداوند نے ظاہر کیا ہے، ”اور اگر کوئی شخص اِس زِندگی میں اپنی مُستَعِدی اور فرماں برداری سے دُوسرے کی نسبت زیادہ عِلم اور فہم حاصل کرے تو، اُسے آنے والی دُنیا میں اُتنا زیادہ اِمتیاز حاصل ہو گا۔“۳ جب دُوسرے اپنے بروقت موّثر فیصلوں کی وجہ سے فیوض و برکات پاتے ہیں، تو ہم بجا طور پر یہ نتیجہ اخذ نہیں کرسکتے ہیں کہ ہمارے ساتھ غیر مُنصفانہ سلُوک کیا گیا ہے کیوں کہ ہمیں ایک جَیسا موقع مِل چُکا ہے۔

نااِنصافی کی ایک اور مثال میری اَہلیہ رُوتھ کے بچپن سے جُڑی ہے، جِس کا اُسے سامنا کرنا پڑا۔ ایک روز رُوتھ کو عِلم ہُوا کہ امی، اُس کی چھُوٹی بہن، مرلا، کو نئے جُوتے خِرید کر دینے لگی ہے۔ رُوتھ نے شکایت کی، ”اماں، یہ بڑی نااِنصافی ہے! مرلا کو پِچھلی بار بھی نئے جُوتے ملے تھے۔“

رُوتھ کی ماں نے پُوچھا، ”رُوتھ، کیا تُمھیں جُوتے پُورے ہیں؟“

رُوتھ نے جواب دیا، ”جی، ہاں۔“

پھر رُوتھ کی ماں نے جواب دیا، ”مرلا کے جُوتے چھوٹے ہو گئے ہیں۔“

رُوتھ نے اِس بات پر اِتفاق کیا کہ خاندان کے ہر بچّے کے لیے جُوتے اُس کے سائز کے مُطابق ہونے چاہیے۔ اگرچہ رُوتھ کو نئے جوتے پسند آتے، لیکن جب اُس نے اپنی ماں کی نظروں سے حالات دیکھے تو اُن کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک کا خیال رفُو چکر ہوگیا۔

بعض نااِنصافیاں بیان نہیں کی جا سکتیں؛ بِلاجواز نااِنصافی غضب ناک ہوتی ہے۔ نامکمل، زخمی، یا لاغر اَبدان کے ساتھ زِندگی بسر کرنے سے نااِنصافی جنم لیتی ہے۔ فانی زِندگی فطری طور پر غیر مُنصفانہ ہے۔ بعض لوگ آسودہ پَیدا ہوتے ہیں؛ بعض نہیں ہوتے۔ بعض کو شفِیق والدین مِلتے ہیں؛ بعض کو نہیں۔ بعض کی عُمر دراز ہوتی ہے؛ بعض کی مُختصر۔ اِسی طرح یہ سِلسلہ آگے بڑھتا رہتا ہے۔ بعض لوگ مُضر غلطیوں کے مُرتکِب ہوتے ہیں جب وہ نیکی کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ بعض نااِنصافی کا تدارُک نہیں کرتے حالاں کہ وہ اَیسا کر سکتے تھے۔ اِنتہائی رنج سے کہنا پڑتا ہے، بعض اَفراد اپنی خُداداد مرضی کو اِستعمال کر کے دُوسروں کو دُکھ دیتے ہیں جب کہ اَیسا اُنھیں ہرگِز نہیں کرنا چاہیے۔

مُختلف اِقسام کی نااِنصافیاں جمع ہوسکتی ہیں، جس سے بہت گھمبیر نااِنصافی کا سونامی پیدا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، کووِڈ–۱۹ کی وبا زیادہ تر اُن کو مُتاثر کرتی ہے جو کثِیر اُلاسباب کے دباؤ کا شِکار ہوتے ہیں، بُنیادی طور پر نُقصانات میں مُبتلا۔ میرا دِل اُن لوگوں کے لیے رنجِیدہ ہوتا ہے جن کو اِس طرح کی ناانصافی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بلکہ مَیں اپنے پُورے درد بھرے دِل سے یہ اِعلان کرتا ہُوں کہ یِسُوع مسِیح دونوں ناانصافی کو سمجھنے اور اِس کا علاج کرنے کی طاقت و لیاقت رکھتے ہیں۔ اُس نااِنصافی کا کوئی مُقابلہ نہیں جو اُس جھِیلی۔ یہ اِنصاف نہ تھا کہ اُس کو ہر قسم کے اِنسانی دُکھوں اور مُصِیبتوں میں سے گُزرنا پڑا۔ یہ اِنصاف نہ تھا کہ اُس کو گُناہوں کے لیے اور آپ کی خطاؤں کی خاطر دُکھ اُٹھانا پڑے۔ بلکہ اُس نے آسمانی باپ اور ہماری محبت کی خاطر اَیسا کرنے کا اِرادہ کِیا۔ وہ کامِل طور پر جانتا ہے کہ ہم پر کیا گُزرتی ہے۔۴

صحائف بتاتے ہیں کہ قدیم اِسرائِیلی شکایت کرتے تھے کہ خُدا اُن کے ساتھ سنگین سلُوک کرتا تھا۔ جواب میں یہواہ نے پُوچھا، ”کیا ایک عورت اپنے شِیر خوار کو بھول سکتی ہے، کہ اپنے رحم کے فرزند پر ترس نہ کھائے؟ جب اَیسا مُمکن نہیں کہ محبت کرنے والی ماں اپنے نوزائیدہ بچے کو بھول جائے گی، یہواہ نے فرمایا کہ اُس کی شفقت اِس سے بھی زیادہ ثابت قدم ہے۔ اُس نے توثیق فرمائی: ”ہاں، شاید وہ بھول جائے، لیکن مَیں تجھے نہ بھُولوں گا۔ … دیکھ، مَیں نے تُجھے اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں پر کھود رکھا ہے؛ اور تیری شہر پناہ ہمیشہ میرے سامنے ہے۔“۵ چُوں کہ یِسُوع مسِیح نے لااِنتہا کفارے کی قُربانی کا فِدیہ دیا ہے، اُس کو ہمارے ساتھ پُوری ہم دردی ہے۔۶ وہ ہم سے اور ہمارے حالات سے ہمیشہ واقِف ہے۔

فانی زِندگی میں، ہم نجات دہندہ کی طرف ”دلیری سے چلیں“ اور رحم، شِفا، اور مدد پائیں۔۷ یعنی جب ہم ناقابلِ بیان تکلیف کا شِکار ہوتے ہیں، خُدا ہمیں، عام، معمولی اور اہم طریقوں سے برکت دے سکتا ہے۔ جب ہم اِن برکات کو پہچاننا سِیکھتے ہیں، خُدا پر ہمارا توّکل بڑھے گا۔ اَبَدیتوں میں، آسمانی باپ اور یِسُوع مسِیح ساری نااِنصافیوں کی تلافی کر دیں گے۔ ہم اَفہام و تفہِیم سے جاننا چاہتے ہیں کیسے اور کب۔ کیسے وہ اَیسا کریں گے؟ کب وہ اَیسا کریں گے؟ میری سمجھ کے مُطابق، اُنھوں نے آشکار نہیں کیا ہے کیسے یا کب۸ مَیں یہ جانتا ہُوں کہ وہ ضرور کریں گے۔

نامساعد صُورتوں میں، ہماری ذمہ داریوں میں سے ایک یہ ہے کہ ”زِندگی کی بابت جو بھی نااِنصافی ہے اُس کا تدارُک یِسُوع مسِیح کے کفارہ کے وسِیلے سے کِیا جا سکتا ہے۔“۹ یِسُوع مسِیح دُنیا پر غالِب آیا اور ساری نااِنصافی کو ”سمیٹ“ لیا۔ اُس کی بدولت، ہم خُوشی منا اور سلامتی پا سکتے ہیں۔۱۰ اگر ہم اُس سے چاہتے ہیں، یِسُوع مسِیح ہماری نااِنصافیوں کو ہمارے فائدے کے لیے تقدیس کرے گا۔۱۱ وہ نہ صرف ہمیں تسلّی دے گا اور نقصان کو پُورا کرے گا؛۱۲ وہ ہماری نااِنصافیوں کو ہمارے فائدے کے لیے اِستعمال کرے گا۔ جب بات کیسے اور کب، کی آتی ہے تو ہمیں، ایلما کی مانند، پہچاننے اور قبُول کرنے کی ضرورت ہے، ”اِس سے کُچھ فرق نہیں پڑتا، کیوں کہ خُدا ساری باتوں کو جانتا ہے؛ اور میرے لیے اِتنا کافی ہے کہ یہی حقِیقت ہے۔“۱۳

ہم کیسے اور کب کے حوالے سے اپنے سوالوں کو بعد کے لیے روک کر رکھنے کی کوشش کر سکتے ہیں اور توجہ یِسُوع مسِیح پر اِیمان کو بڑھانے پر دے سکتے ہیں، چُوں کہ سب چِیزوں کو اچّھا کرنے کی قُدرت اُس کے پاس ہے اور وہ شِدت سے ایسا کرنا چاہتا ہے۔۱۴ ہمارے لیے کیسے یا کب کو جاننے پر زور دینا بےفائدہ ہے اور، بالآخر، کوتاہ نظری۔۱۵

جَیسے جَیسے یِسُوع مسِیح پر ہم اِیمان بڑھاتے ہیں، ہمیں اُس کی مانند بننے کی کوشش کرنا ہوگی۔ پھر ہم شفقت کے ساتھ دُوسروں تک پہنچ سکتے ہیں اور جہاں کہیں ہمیں نااِنصافی نظر آتی ہے اُس کا تدارُک کرنے کی کوشش کرتے ہیں؛۱۶ ہم اپنے حلقہِ اَثر و رُسُوخ میں چیزوں کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ درحقیقت، نجات دہندہ نے ہدایت دی ہے کہ ہم ”بےتابی کے ساتھ کارِ خیر میں مشغُول رہیں، اور بہتیرے کام [ہم] اپنی آزاد مرضی سے کریں، اور نہایت نیکی کا باعث بنیں۔“۱۷

کوئی شخص جو نااِنصافی کے خِلاف لڑتا رہا ہے وہ ایڈوکیٹ برائن سٹیون سن ہے۔ اَمریکہ میں اِس کی قانونی چارا جوئی غلط اِلزامات کے شِکار لوگوں کا دفاع کرنا ہے، حد سے زیادہ سزا کے خاتمے اور بُنیادی اِنسانی حقُوق کے تحفظ کے لیے وقف ہے۔ چند برس پہلے، کسی اَیسے شخص کا دفاع کیا جس پر قتل کا جُھوٹا اِلزام تھا اور سزائے موت سُنائی گئی تھی۔ مسٹر سٹیون سن نے اُس شخص کی مقامی کلِیسیا سے مدد کی درخواست کی تھی، حالاں کہ یہ شخص اپنی کلِیسیا کا فعال رُکن نہ تھا اور کئی غیر اِزدواجی تعلقات میں ملوث ہونے کی وجہ سے معاشرے میں اُس کو ناپسند کیا جاتا تھا۔

کلِیسیا کے اَرکان کی توجہ اہم معاملے پر دِلائی، مسٹر سٹیون سن نے اُن سے اُس زِانی مُلزمہ کے بارے میں بات کی جس کو یِسُوع کے پاس لایا گیا تھا۔ اِلزام لگانے والے اُس کو سنگ سار کر کے ہلاک کرنا چاہتے تھے، لیکن یِسُوع نے فرمایا، ”جو تُم میں بےگُناہ ہو … ، وُہی پہلے اُس کے پتّھر مارے۔“۱۸ عورت پر اِلزام لگانے والے واپس چلے گئے۔ یِسُو ع نے اُس عورت کو مُجرم نہ ٹھہرایا بلکہ پِھر گُناہ نہ کرنے کا حُکم جاری کِیا۔۱۹

اِس واقعہ کو سُنانے کے بعد، مسٹر سٹیون سن نے غَوروفکر کیا کہ خُود پارسائی، خَوف اور غُصّے نے مسِیحیوں کو بھی اَیسے لوگوں کو سنگ سار کرنے پر اُکسایا ہے جو بھٹک جاتے ہیں۔ پھر اُس نے کہا، ”ہم اَیسا ہوتے ہُوئے نہیں دیکھ سکتے،“ اور کلِیسیائی اَرکان کی ہمت بندھائی کہ ”پتھروں کو ہٹانے والے بنیں۔“۲۰ بھائیو اور بہنو، پتھر نہ مارنا دُوسروں کے ساتھ ہمدرانہ سلُوک کی طرف پہلا قدم ہے۔ دُوسروں کی طرف سے پھینکے گئے پتھروں کو ہٹانے کی کوشش کرنا دُوسرا قدم ہے۔

نفع اور نقصان سے نمٹنا زِندگی کے اِمتحان کا حِصّہ ہے۔ ہم جو کچھ کہتے ہیں اِس سے ہماری عِدالت نہ ہوگی بلکہ ہم کس طرح کم زور اور پسماندہ افراد کے ساتھ سلوک کرتے ہیں۔۲۱ مُقدسِینِ آخِری ایّام ہونے کے ناطے، ہم نجات دہندہ سِیرت کی تقلید کے مُشتاق ہیں، کہ جائیں اور نیکی کریں۔۲۲ ہم آسمانی باپ کے سب بچّوں کے وقار کو یقینی بنانے کے عمل پر مُتحرک ہو کر اپنے پڑوسی سے اپنی محبت کا ثبوت دیتے ہیں۔

اپنے اپنے نفع اور نقصان کو ذہن میں رکھ کر، غَوروفِکر صحت مند بات ہے۔ جان کو اِس بات کا اِدراک ہونا کہ آنا کو سائِیکل کیوں مِلی راز کا کُھلنا تھا۔ رُوتھ کے لیے اپنی والِدہ کی نظروں سے مرلا کے لیے نئے جوتوں کی ضرورت کو دیکھنا روشن ضمیری تھا۔ چِیزوں کو اَبَدی تُناظر میں دیکھنا زیادہ واضح اور شِفاف ہو سکتا ہے۔ جَیسے جَیسے ہم نِجات دہندہ کی مانند بنتے ہیں، ہم شفقت، محبت، اور اِدراک میں مزید بڑھتے جاتے ہیں۔

مَیں کیگالی میں اپنے ساتھی مسافر کے پُوچھے گئے سوال کی طرف آتا ہُوں جس نے روانڈا کی نسل کشی کے غیر مُنصفانہ ہونے پر اَفسوس کا اِظہار کیا اور پُوچھا، ”اگر کوئی خُدا ہوتا تو کیا وہ اِس کے بارے میں کچھ نہ کرتا؟“

نسل کشی کے سبب سے جنم لینے والے دُکھ درد کو پسِ پُشت ڈالے بغیر، اور اِس طرح کے مصائب کو سمجھنے میں اپنی نااہلی کو تسلیم کرنے کے بعد، ہم نے جواب دیا کہ یِسُوع مسِیح نے اِس تباہ کُن نااِنصافی کے حوالے سے کُچھ انجام دیا ہے۔۲۳ ہم نے یِسُوع مسِیح اور اُس کی کلِیسیا کی بحالی کی بابت کئی اِنجِیلی سچّائیوں کی تفسِیر بیان کی۔۲۴

بعداَزاں، اُس دوست کی آنکھیں پُرنم تھیں، اور پُوچھا، ”آپ کا مطلب ہے کہ مَیں اپنے مرحُوم والدین اور اَنکل کے لیے کُچھ کر سکتا ہُوں؟“

ہم نے کہا، ”جی، بالکُل!“ تب ہم نے گواہی دی کہ زِندگی کے حوالے سے جِتنی بھی نااِنصافی ہے وہ یِسُوع مسِیح کے کَفّارہ کے وسِیلے ہی ٹھیک کی جا سکتی ہے اور اُس کی قُدرت کے وسِیلے سے خاندان ہمیشہ کے لیے مِل سکتے ہیں۔

جب ہم نااِنصافی کا سامنا کرتے ہیں، تو ہم خُدا سے دُور جا سکتے ہیں یا ہم مدد اور تشفی کے لیے اُس کی طرف رُجُوع لا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر نیفیوں اور لامنوں کے مابین طویل عرصہ تک جاری رہنے والی جنگ نے لوگوں کو کئی طریقوں سے مُتاثر کیا۔ مورمن نے غَور کیا کہ ”بہت سارے سخت گیر ہو گئے“ جب کہ کئی ”اپنی مُصِیبتوں کی وجہ سے فروتن کیے گئے، اِس حد تک کہ وہ اپنے تئیں خُدا کے حُضُور عاجز ہُوئے۔“۲۵

نااِنصافی تُمھیں سخت گیر نہ کرے یا خُدا پر تُمھارے اِیمان کو نہ زنگ آلودہ نہ کرے۔ بلکہ خُدا سے مدد مانگیں۔ نجات دہندہ کے لیے اپنی تمجید اور توّکل کو بڑھائیں۔ بجائے اِس کے کہ تُم کڑواہٹ کا شِکار بنو، اُس کو موقع دو کہ وہ تُمھیں بہتر بنائے۔۲۶ ثابت قدم بننے میں وہ آپ کی مدد کرے گا، اپنی ”مُصیبتوں کو مسِیح کی خُوشی میں مغلُوب ہو جانے دو۔“۲۷ اُس کے مقصد میں شامِل ہو جاؤ ”دریدہ دِلوں کو مُندمِل کرو،“۲۸ نااِنصافی کو دُور کرنے کی کوشش کرو، اور پتھر ہٹانے والے بنو۔۲۹

مَیں گواہی دیتا ہُوں کہ یِسُوع مسِیح زِندہ ہے۔ وہ نااِنصافی کو سمجھتا ہے۔ اُس کی ہتھیلیوں کے زخم پیہم اُسے تُمھیں اور تُمھارے حالات سے واقف رکھتے ہیں۔ وہ تُمھاری ساری مُصِیبتوں میں نگہداشت کرتا ہے۔ پَس جو اُس کی طرف رُجُوع لاتے ہیں، ماتم کی راکھ کے بدلے حُسن کا تاج پائیں گے؛ دُکھ اور غم خُوشی اور شادمانی میں بدل جائیں گے، مایُوسی اور نااُمیدی جشن اور شُکرگُزاری میں بدل جائیں گے۔۳۰ یِسُوع مسِیح اور آسمانی باپ پر اپنے اِیمان کا اَجر اپنے تصُور سے بڑھ کر پاؤ گے۔ ساری نااِنصافی—خاص طور پر غضب ناک نااِنصافی—تُمھارے نفع کے لیے تقدیس کی جائے گی۔ مَیں اِس کی گواہی یِسُوع مسِیح کے نام سے دیتا ہُوں، آمین۔

حوالہ جات

  1. See John Reader, Africa: A Biography of the Continent (1999), 635–36, 673–79.

  2. اگرچہ پُراُمید، روانڈا کی صُلح پیچِیدہ ہے۔ بعض اِس کی سنجِیدگی اور اَستحکام پر سوال اُٹھاتے ہیں۔ دیکھیے، مثال کے طور پر، “The Great Rwanda Debate: Paragon or Prison?,” Economist, Mar. 27, 2021, 41–43.

  3. عقائد اور عہود ۱۳۰:‏۱۹؛ تاکید اضافی ہے۔

  4. دیکھیے عبرانیوں ۴:‏۱۵۔

  5. ۱ نیفی ۲۱: ۱۵–۱۶۔

  6. دیکھیے ایلما ۷:‏۱۱–۱۳۔

  7. دیکھیے عِبرانیوں ۴:‏۱۶؛مزید دیکھیے یسعیاہ ۴۱:‏۱۰؛ ۴۳:‏۲؛ ۴۶:‏۴؛ ۶۱:‏۱–۳۔

  8. کلمہِ تنبّیہ: ہمیں اپنے اپنے مفرُوضے تیار کرنے کی آزمایش سے بچنا چاہیے مثال کے طور پر کیسے اور کب، ہوگا چاہے ہماری دلیل یا منطق کتنی بھی ٹھوس ہو۔ ہم اُس خلا کو کسی طور پر بھی پُورا نہیں کر سکتے جس کی بابت خُدا نے ابھی آشکار نہیں کیا۔

  9. میری اِنجِیل کی مُنادی کرو: راہنما برائے تبلیغی خِدمت (۲۰۱۸)، ۵۲؛ مزید دیکھیے یسعیاہ ۶۱:‏۲–۳؛ مُکاشِفہ ۲۱:‏۴۔ ”زِندگی کی بابت جو بھی نااِنصافی ہے اُسے دُرست کیا جا سکتا ہے“اِس سے مُراد یہ مُمکن ہے کہ ہمارے ساتھ ناانصافی کے نتائج کو حل کیا جائے گا، اَثرات کو کم کیا جائے یا اُن کا خاتمہ کیا جائے۔ مجلسِ عامہ کے اپنے آخِری خطاب ”جو بھی نتیجہ نِکلے، اور اُس سے پیار کرنا،“ میں بُزرگ جوزف بی وردلِن نے فرمایا، ”آج کے ہر آنسو کے بدلے میں خُوشی اور شُکرگُزاری کے سَو گُنا آنسو مِلیں گے۔ … فدِیہ کا اُصُول غالِب آتا ہے“ (لیحونا، نومبر ۲۰۰۸، ۲۸)۔

  10. دیکھیں یُوحنا ۱۶:‏۳۳۔

  11. دیکھیں ۲ نیفی ۲:‏۲۔

  12. دیکھیے ایُّوب ۴۲:‏۱۰، ۱۲–۱۳؛ یعقوب ۳:‏۱۔

  13. ایلما ۴۰:‏۵۔

  14. دیکھیں مضایاہ ۴:‏۹۔

  15. دیکھیے رسل ایم نیلسن، ”خُدا کو غالِب آنے دو،“ لیحونا، نومبر ۲۰۲۰، ۹۳۔ کوتاہ نظری کے معانی نزدیک کی نظر ہے۔.

  16. مثال کے طور پر، سِپہ سالار مرونی نے توثیق کی کہ اَفراد کا بےحس ہو کر ”کُچھ نہ کرنا“ غلط ہے جب وہ دُوسروں کی مدد کر سکتے ہیں (دیکھیے ایلما ۶۰:‏۹–۱۱؛ مزید دیکھیے ۲ کُرنتھِیوں ۱:‏۳—۴

  17. عقائد اور عہود ۵۸:‏۲۷؛ مزید دیکھیے آیات ۲۶، ۲۸–۲۹۔

  18. یُوحنّا ۸:‏۷۔

  19. دیکھیے یُوحنّا ۸:‏۱۰–۱۱؛ جوزف سمتھ کے ترجمے میں ۱۱ویں آیت میں مرقُوم ہے، ”اور اُس عورت نے اُسی گھڑی سے خُدا کی تمجید کی اور اُس کے نام پر اِیمان لے آئی،“ اِس بات کا اِظہار ہے کہ نجات دہندہ کا سزا دینے سے اِجتناب اور ”آیندہ گُناہ نہ کرنے کا“ حُکم عورت کی باقی کی زِندگی پر اَثر پذیر ہو گیا۔

  20. برائن سٹیون سن، صرف رحم: اِنصاف اور رہائی کی کہانی (۲۰۱۵)، ۳۰۸–۹۔

  21. دیکھیں متی ۲۵:‏۳۱–۴۶۔

  22. دیکھیے اَعمال ۱۰:‏۳۸؛سل ایم نیلسن، ”دُوسرا سب سے بڑا حُکم،“ لیحونا، نومبر.۲۰۱۹۰، ۹۶–۱۰۰۔

  23. دیکھیں عقائد اور عہُود ۱:‏۱۷، ۲۲–۲۳۔

  24. اِن سچّائیوں کو ”یِسُوع مسِیح کی معموریِ اِنجیل کی بحالی: دُنیا کے لیے دو صد سالہ فرمان،“ میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ ChurchofJesusChrist.org.

  25. ایلما ۶۲:‏۴۱۔

  26. دیکھیے mos C. Brown, in Boyd Matheson, “‘It Can Be Well with This Nation’ If We Lock Arms as Children of God,” Church News, July 25, 2019, churchnews.com.

  27. ایلما ۳۱:‏۳۸۔

  28. دیکھیں لُوقا ۴:‏۱۶–۱۹۔ دریدہ دِلوں کو مُندمِل کرنا اُن لوگوں کی بحالی ہے جن کے ذہنوں، اِرادوں، عقلوں یا باطن کو مُنتشِر یا کچل دِیا گیا ہے (دیکھیں جیمز سٹرونگ، کلامِ مُقدس کی نئی مضبوطی میں توسیعی ہم آہنگی [۲۰۱۰]، عِبرانی لُغت کا حِصّہ، ۱۳۹ اور ۲۷۱)۔

  29. دیکھیے، مثال کے طور پر، رسل ایم نیلسن ”خُدا کو غالِب آنے دو،“ لیحونا، نومبر ۲۰۲۰، ۹۴؛ ڈیلن ایچ اوکس،”اپنے دُشمنوں سے پیار کرو،“ لیحونا، نومبر. ۲۰۲۰، ۲۶–۲۹۔ صدر نیلسن نے ہدایت فرمائی: ”آج مَیں اپنے اَرکان سے جہاں کہیں بھی ہیں مُطالبہ کرتا ہُوں کہ وہ متعصبانہ رویوں اور اقدامات کو ترک کرنے میں پہل کریں۔ مَیں آپ سے اِلتجا کرتا ہُوں کہ خُدا کے سب بچّوں کے لیے عزت و احترام کو فروغ دیں۔“ یہ صرف مُتصبانہ رویوں اور افعال کی مُخالفت کرنے سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے۔ صدر اوکس نے ریورنڈ ٹریضا اے ڈیئر کا قول دُہرایا: ”نسل پرستی نفرت، جبر، ملی بھگت، غیرجانبداری، بے حسی اور خاموشی پر پنپتی ہے۔“ پھر اُس نے کہا، ”کلِیسیائے یِسُوع مسِیح برائے مُقدّسین آخِری ایّام کے اَرکان کی حیثیت سے، ہمیں نسل پرستی کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے میں مدد کرنے کے لیے بہتر کام کرنا چاہیے۔“

  30. دیکھیں یسعیاہ ۶۱:‏۳۔ حُسن کا تاج پانے سے مُراد یہ ہے کہ ہم یِسُوع مسِیح کے ساتھ خُدا کی بادِشاہی میں باہم وارِث ہوں گے۔ مزید دیکھیے ڈونلڈ ڈبلیو پیری، جے اے پیری، اور ٹینا ایم پیٹرسن، یسعیاہ کا اِدراک (۱۹۹۸)، ۵۴۱–۴۳۔