۲۰۱۸
رابطہٹؤٹنے کا احساس؟ دھیما ہونا آزمائیں
جولائی ۲۰۱۸


رابطہٹؤٹنے کا احساس؟ دھیما ہونا آزمائیں

“مجھے انتظار کرنا اچھا لگتا ہے، ” کبھی کسی نے نہیں کہا۔ مگر شاید اُنہیں کہنا چاہیے۔

اگر آپ خُود کوخوف زدہ مکڑیوں اور افعیوں کے ساتھ قطار میں کھڑا تصور کرتے ہیں تُو آپ اکیلے نہیں ہیں جو ایسامحسوس کرتے ہیں۔

چاہے ہم قطار میں کھڑے ہیں ، ٹریفک میں پھنسے ہیں ، یا بس کے منتظر ہیں ، ہم انتظار کرنے سے نفرت کرتے ہیں۔

خُوش قسمتی سے ، ہمارے لئے، انتظار کے اوقات حقیقتاً بُرے خواببن رہے ہیں: ایک متوقع خوف ہے مگر روزانہ کا معمول نہیں ہے۔ ہم ایک ایسے دور میں رہتے ہیں جہاں ہم شاید ہی کسی چیز کا منتظر ہونا پڑتا ہے۔ ٹیکنالوجی نے ہر چیز کی رفتار اتنی بڑھادی ہے کہ ہم گولڈ فش( نقرئی مچھلی ) سے بھی کم عرصہِ توجہ رکھتے ہیں ( ہاں ، واقعی)۔۱ جب انتظار کرنے کی ضرورت اُبھرتی ہے ( جب کبھی انتظار کرنا پڑ جائے)، ہم اپنا وقت—عموماًموبائل ڈیوائس پر دھیان دے کر پورا کرتے ہیں۔

فطری طور پر ٹیکنالوجی یا ( کارگردگی )غلط نہیں ہے، مگر تیز رفتار اندازِ زندگی اورتوجہ کا مستقلخلل شاید ہمیں اِس سے کہیں زیادہ اہم کام سےروک رہے ہیں۔

ایک موہ لینے والے صحیفہ سے کہیں زیادہ

تھوڑا عرصہ پہلے، میں بالکل بھی روحانی محسو س نہیں کر رہی تھی۔ میں اِسے سمجھ نہ سکی۔ میں چرچ جا رہی تھی، مختصر دُعائیں کر رہی تھی، اور اپنے صحائف پر اُچٹتی نظر ڈال رہی تھی۔ میں خال خال ہی روحانی الہامپا رہی تھی ، مگر عموماً، میں نے خُدا سے رابطہ قدرے منقطع محسو س کیا۔

جب میں نےآسمانی باپ کو بتایا کہ یہ ایک عجلت بھری دُعا ہے، میرے ذہن میں یہ الفاظ آئے: “ تسلی رکھواور جان لو کہ میں خُدا ہو ں” ( زبور ۴۶: ۱۰)

ایسا لگتا تھا جیسے تسلی رکھ کے الفاظ پر بہت پُر زور طور سے میری توجہ مرکوز کروائی جا رہی تھی۔

میں شاید سارے کام ٹھیک کر رہی ہونگی، مگر میں اُنہیں نہایت تیز رفتاری اوربے توجہی سے کر رہی تھی۔ میں نے بے دھیانی کے انداز میں انجیل پر عمل کرنا اپنالیا تھا۔

کوئی مذہبی سرگرمیاں میرے لئے گہرے روحانی رابطہ کو نہیں لا سکتی تھیں اگر میری شمولیت بے دھیان او ر مختصر ہو گی۔ یہ ایک موہ لینے والےصحیفےسے کہیں زیادہ تھا۔ خُدا کو جاننے اور الہٰی ، سرایت کرجانے والے علم کے ساتھ رابطہ جوڑنے کےلئے جس کی مجھے حسرت تھی، مجھے دھیما اور خاموش ہونے کی ضرورت تھی۔

اُن تترغیبات پر عمل پیرا ہونااتنا آسان نہ تھا۔ مگر اِس نے بہت بڑا فرق ڈالا۔

اب، ہمیں دھیما ہونے کی ضرورت ہے …

نیفی سیکھاتا ہے کہ وہ جو “جانفشانی سے ڈھونڈتا ہے پائے گا، اور خُداکے بھید روح القُدس کی قدرت سےظاہر کیے جائیں گے”( ا۔نیفی ۱۰: ۱۹؛ تاکید شامل ہے)۔

آئیں اِس آیت کا جائزہ لیں: خُدا کے بھید جاننے کے لئے جانفشانی سے ڈھونڈنے کی ضرور ت ہے۔ یہ ایک مستقل اور ارادی سرگرمی ہے ، اور ایک بار کی انٹرنیٹ کی تلاش نہیں ہے۔ پھر، بھید اچانک نہیں اُبھر پڑتے؛ وہ بتدریج واضح ہوتے ہیں ۔ اِس عمل میں وقت لگتا ہے۔ اور یہ وقت ضروریہے! جو وقت ہم غور و خوص کرنے اور ڈھونڈنے میں صرف کرتے ہیں ہمیں روح کے ساتھ رابطہ کرنے کا موقع دیتا ہے جس کی قدرت سے جوابات ملتے ہیں۔

صدر ڈیوڈ او مکئے (۱۸۷۳ -۱۹۷۰) نے فرمایا ہے کہ غور و خوص—”کسی مذہبی موضوع پر گہری ، مستقل سوچ بچار“— ”مقدس ترین دروازوں میں سے ایک ہے جس میں سے گزر کر ہم خُداوند کی حضوری میں آتے ہیں ۔“ ۲ دھیما ہونے سے، ہم مکاشفہ کے لئے ایک در کھول سکتے ہیں۔ ہم دنیا کے مروجہ معیاروں سے بالا تر ہو کر جو الہٰی ہے اُ س سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ ہمیں اُس در کی ضرورت ہے۔ ہمیں دھیما ہونے کی ضرورت ہے۔

اِس کے لئے کوشش درکا رہے۔

میرے لئے، دھیما ہونے کا مطلب گھٹنے ہونا اور بلند آواز سے بولنا ہے جب میں دُعا کروں۔ میری جسمانی مودب حالت اور میرے اپنے بولے گئے الفاظ کو سُننے سے اپنی توجہ بہتر طور پر برقرار رکھنے میں مد دملی۔ دھیما ہونے کا مطلب صحائف کے سیٹ میں سے مطالعہ کرنا اور نوٹس لکھنا ہے۔ اِس میں زیادہ وقت اور کوشش لگی، اور وہ زیادہ کوشش اور وقت ”جاگنے اور اپنی ذہنی قوتوں کو بیدار ، “ کرنےکا اچھا طریقہ ہے یوں روح اور سچائی پانے کی خواہش کو ” اپنے اندر کام کرنے“ اور گواہی کے اُس بیج کو ” جڑ پکڑنے، بڑھنے اور پھل لانے کی“ اجازت دینا۔ ( ایلما ۳۲: ۲۷، ۳۷

ہم چند ایک بٹن دبانےسے تقریباً کوئی بھی معلومات تلاش کر سکتے ہیں، مگر روحانی فہم اور تبدیلی کے لئے وقت اور جانفشاں کوشش درکار ہے۔ یہ اہم نہیں کہ آپ کیسے دھیمے ہوتے اور انجیل سیکھنےکے لئے کوشش وقف کرتےہیں بلکہ، صرف یہ اہم ہے کہ آپ ایسا کریں! جب ہمیں معلومات بہ آسانی دستیاب ہوتی ہیں ، ہم زیادہ تر اپنی ذاتی سیکھ میں اپنی شرکت کو حذف کر دیتے ہیں ۔ ہم روح کے ساتھ رابطہ رکھنے کے مواقع حذف کر دیتے ہیں۔

ٹیکنالوجی اور سائنسی ترقی جو روزمرہ کے کاموں کو آسان بناتی اور ہمیں اپنے وقت کو زیادہ موثر طور پر استعمال کرنے کے قابل بناتی ہیں ہم یقینااُنہیں اپنا سکتے ہیں۔ مگر ہم اُس بے توجہ طرز زندگی اور سطحی سوچ کو اپنانے کے متحمل نہیں ہو سکتے جو اکثر اس کے نےنتیجہ میں آتی ہے۔ انتظار کرنے کی حاجت سے خوفزدہ ہونے کی بجائے ، ہم اِسے دھیماہونے ، غورو خوض کرنے، اور روح کے ساتھ اپنے رابطہ کو گہرا کرنے کے موقع کے طور پر قبول کر سکتے ہیں۔

حوالہ جات

  1. دیکھئے لیئون واٹسن، “Humans Have Shorter Attention Span Than Goldfish, Thanks to Smartphones,” The Telegraph, May 15, 2015, telegraph.co.uk.

  2. Teachings of Presidents of the Church: David O. McKay (2011), 31, 32.

خاکہ کشی از پاسکل کیمپیون