مجلسِ عامہ
مُسرِف بیٹا اور وہ راہ جو گھر کی طرف جاتی ہے
مجلسِ عامہ اکتوبر ۲۰۲۳


مُسرِف بیٹا اور وہ راہ جو گھر کی طرف جاتی ہے

اگرچہ فیصلے آپ کو نجات دہندہ اور اُس کی کلِیسیا سے بُہت دُور لے گئے ہوں گے، لیکن مالک و شافی گھر کی طرف آنے والے راستے پر کھڑا ہوتا ہے، آپ کا اِستقبال کرتا ہے۔

کِسی شخص کے دو بیٹے تھے

بعض لوگوں نے اِس کو اب تک کی سب سے بڑی چھوٹی کہانی کہا ہے۔۱ چُوں کہ دُنیا کی ہزاروں زبانوں میں اِس کا ترجُمہ ہُوا، اِس لِیے یہ بالکل مُمکن ہے کہ گُزشتہ دو ہزار برسوں کے دوران میں، دُنیا میں کہیں اِس کہانی کا حوالہ دِیے بغیر سُورج غرُوب نہیں ہُوا۔

یہ ہمارے مُخلصی دینے والے اور نجات دہندہ یِسُوع مسِیح نے بتائی تھی، جو دُنیا میں آیا تھا کہ ”کھوئے ہُوؤں کو بچائے۔“۲ وہ اِن سادہ اَلفاظ سے شُروع کرتا ہے: ”کِسی شخص کے دو بیٹے تھے۔“۳

فوراً ہم دِل شِکن تنازعہ کی بابت جانتے ہیں۔ ایک بیٹا۴ اپنے والِد کو بتاتا ہے کہ گھر کی زِندگی سے اُس کا جی بھر گیا ہے۔ وہ اپنی آزادی چاہتا ہے۔ وہ اپنے والدین کی تہذیب اور تعلیم کو پسِ پُشت ڈالنا چاہتا ہے۔ وہ اپنی وراثت کے حِصّہ کا تقاضا کرتا ہے—اِسی وقت۔۵

کیا آپ تصُّور کر سکتے ہیں کہ والِد نے یہ سُن کر کیا محسُوس کیا؟ جب اُس کو اَحساس ہُوا کہ اُس کا بیٹا کسی بھی شَے سے بڑھ کر کیا چاہتا ہے وہ خاندان کو چھوڑنا ہے اور شاید کبھی واپس نہیں آئے گا؟

شان دار مہم جوئی

بیٹے نے مہم جوئی اور جوش و خروش کی سنسنی کو محسُوس کِیا ہوگا۔ آخِر کار، وہ خُود مُختار ہو گیا۔ اپنے لڑکپن کی تہذِیب کے اُصولوں اور بندشوں سے آزاد، وہ آخِر کار اپنے والدین سے مغلُوب ہُوئے بغیر اپنے فیصلے خُود کر سکتا تھا۔ احساسِ خطا کے بغیر۔ وہ کسی ہم خیال صُحبّت کو اپنا سکتا تھا اور اپنی شرائط پر زِندگی گُزار سکتا تھا۔

کسی دُور دراز مُلک میں پُہنچ کر، اُس نے فوری نئے دوست بنائے اور اَیسی زِندگی گُزارنا شُروع کر دی جِس کا اُس نے ہمیشہ خواب دیکھا تھا۔ بُہت سے لوگ اُس کو پسند کرتے ہوں گے، کیوں کہ اُس نے بے دریغ روپیہ خرچ کِیا۔ اُس کے نئے دوست—اُس کی شاہ خرچیوں پر پلنے والوں نے—اُس کی ملامت نہ کی۔ اُنھوں نے اُس کے فیصلوں پر جشن منایا، تالیاں بجائیں، اور اُن کی حمایت میں نعرے لگائے۔۶

اگر اُس وقت سوشل میڈیا ہوتا، تو یقیناً، وہ ہنستے ہُوئے دوستوں کی مُتحرک تصاویر سے صفحات بھر دیتا: #اپنی من پسند زِندگی گُزارتا ہُوں! #اِتنی خُوشی کبھی نہ تھی! #اَیسا بُہت عرصہ پہلے کر لینا چاہیے تھا!

کال

البتہ جشن زیادہ دیر نہ چلا—یہ چلتا بھی نہیں۔ دو باتیں ہُوئیں: پہلی، وہ سب خرچ کر چُکا تھا، اور دُوسری، اُس مُلک میں سخت کال پڑا۔۷

جُوں ہی مُشکلات شدِید ہُوئیں، وہ پریشان ہو گیا۔ کبھی نہ رکنے والا، بڑا شاہ خرچ، اب ایک وقت کے کھانے کا خرچا نہیں اٹھا سکتا تھا، رہنے کی جگہ کی تو بات ہی نہ کریں۔ وہ کیسے گُزر بسر کرے گا؟

وہ اپنے دوستوں کے لِیے بڑا سخی تھا—کیا وہ اب اُس کی مدد کریں گے؟ مَیں اُس کو دیکھ سکتا ہُوں کہ وہ تھوڑی سی مدد کا طلب گار ہے—صِرف ابھی کے لِیے—جب تک وہ اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہو جاتا۔

صحائف ہمیں بتاتے ہیں، ”کوئی اُسے نہ دیتا تھا۔“۸

وہ مُحتاج ہونے لگا، تو اُس نے مقامی کِسان کو تلاش کِیا جِس نے اپنے سُوروں کو کھانا کھلانے کے لیے اُسے مزدور رکھا۔۹

اب اِنتہائی بھوکا، لاوارِث اور اکیلا، اُس نوجوان نے سوچا ہوگا کہ حالات اِتنے خوف ناک، بھیانک حد تک بِگڑ کیسے سکتے ہیں۔

یہ صِرف خالی پیٹ نہیں تھا جو اُس کو پریشان کرتا تھا۔ یہ کھوکھلی رُوح تھی۔ اُس کو یہ یقین تھا کہ اپنی دُنیاوی خواہشات کو قبُول کرنے سے اُس کو خُوشی مِلے گی، اَخلاقی قوانین اُس خُوشی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ اب وہ زیادہ بہتر طور پر جان گیا تھا۔ اور ہاں، اَیسی آگہی پانے کے لِیے اُس نے کتنی بڑی قِیمت چُکائی تھی!۱۰

جُوں جُوں جسمانی اور رُوحانی بھُوک بڑھتی گئی، اُس کے خیالات اپنے والِد کی طرف لوٹ آئے۔ اِتنا سب کُچھ ہونے کے بعد، وہ اُس کی مدد کرے گا؟ یعنی اُس کے والِد کے سب سے عاجز نوکروں کے پاس کھانے کو کھانا تھا اور طوفانوں سے بچنے کے لِیے پناہ گاہ۔

لیکن اپنے والِد کے پاس واپس؟

کبھی نہیں۔

اپنے گاؤں کے سامنے اِعتراف کرنا کہ اُس نے اپنا مال بدچلنی میں اُڑا دیا تھا؟

نامُمکن۔

اُن پڑوسیوں کا سامنا کرنا جنھوں نے یقیناً اُس کو خبردار کِیا تھا کہ وہ اپنے خاندان کی بے عزتی کر رہا تھا اور اپنے والدین کا دِل توڑ رہا تھا؟ اپنے پُرانے دوستوں کے پاس یہ شیخی بگھارنے کے بعد کہ وہ کیسے آزاد ہو رہا تھا؟

ناقابلِ برداشت۔

لیکن بُھوک، تنہائی اور پچھتاوا آسانی سے پِیچھا نہیں چھوڑیں گے—جب تک ”وہ ہوش میں نہ آیا۔“۱۱

وہ جانتا تھا کہ اُسے کیا کرنے کی ضرُورت ہے۔

واپسی

اب ہم والِد کی طرف جاتے ہیں، جو شِکستہ دِل گھر کا مالِک ہے۔ اُس نے کتنی سینکڑوں، شاید ہزاروں گھڑیاں اپنے بیٹے کی فکر میں گزاریں؟

اُس نے کتنی بار اُس راستے پر نِگاہ ڈالی جِس پر اُس کا بیٹا گیا تھا اور اُس جِگر خراش صدمے میں سے گُزرا جو اُس نے اپنے بیٹے کی جُدائی میں محسُوس کیا تھا۔ اُس نے رات کے پِچھلے پہروں میں کتنی دُعائیں مانگی تھیں، خُدا سے فریاد کی تھی کہ اُس کا بیٹا سلامت رہے، کہ وہ سچّائی دریافت کرے، کہ وہ واپس آئے؟

اور پِھر، ایک دِن، باپ نے اُس سُنسان راستے پر نظر ڈالتا ہے—وہ راہ جو گھر کی طرف آتی ہے—اور دُور سے کسی کو اپنی طرف آتے ہُوئے دیکھا۔

کیا اَیسا مُمکن ہے؟

اگرچہ وہ فرد بُہت دُور ہے، لیکن باپ کو ایک لمحے میں معلُوم ہو جاتا ہے کہ یہ اُس کا بیٹا ہے۔

وہ اُس کی طرف دوڑتا ہے، اُس کو گلے لگاتا، اور چُومتا ہے۔۱۲

”اَبّا،“ بیٹا چِلاتا ہے، بیٹے نے یہ بات کہنے کے لِیے ہو سکتا ہے کہ اُس نے ہزار بار ریہرسل کی ہوگی، ”مَیں آسمان کا اور تیری نظر میں گُنہگار ہُوا۔ اَب اِس لائِق نہیں رہا کہ پِھر تیرا بیٹا کہلاؤں۔ مَیں صِرف یہ درخواست کرتا ہُوں کہ تُو مُجھے اپنے مزدُوروں جَیسا کر لے۔“۱۳

بلکہ باپ اُس کی بات بھی ختم نہیں ہونے دیتا۔ اُس کی آنکھوں میں آنسو تھے، اُس نے اپنے نَوکروں کو حُکم دیا: ”اچھّے سے اچّھا لِباس جلد نِکال کر اُسے پہناؤ۔ اور اُس کے ہاتھ میں انگُوٹھی اور پاؤں میں جُوتی پہناؤ۔ خُوشی منانے کے لِیے ضیافت کا اہتمام کرو۔ میرا بیٹا واپس آیا ہے!“۱۴

جشن

میرے دفتر میں جرمن مُصّور رچرڈ برڈ کی پینٹنگ لگی ہوئی ہے۔ ہیریئٹ کو اور مُجھے یہ پینٹنگ بُہت پسند ہے۔ یہ نجات دہندہ کی تمثیل سے اِنتہائی نازک منظر کو گہرے تناظر میں پیش کرتی ہے۔

شبیہ
مُسرِف بیٹے کی واپسی، مِنجانب رِچرڈ برڈ۔

بیٹے کی واپسی پر ہر کوئی بُہت خُوش تھا، لیکن ایک نہیں تھا—اُس کا بڑا بھائی۔۱۵

وہ کُچھ جذباتی بوجھ اُٹھائے ہُوئے ہے۔

وہ وہاں تھا جب اُس کے بھائی نے اپنی وِراثت کا مُطالبہ کِیا تھا۔ وہ اپنے والِد پر پڑنے والے اِنتہائی شدِید غم کا شاہد تھا۔

جب سے اُس کا بھائی گیا تھا، اُس نے اپنے باپ کے بوجھ کو اُٹھانے کی کوشش کی تھی۔ ہر روز، وہ اپنے والد کے شِکستہ دِل کو بحال کرنے کے لیے محنت کرتا تھا۔

اور اب وہ لاپروا بچّہ واپس آ گیا تھا، اور لوگ اُس کے سرکش بھائی پر توجہ مرکُوز کرنے سے باز نہیں آ رہے تھے۔

”اِتنے برسوں سے،“ اُس نے اپنے باپ سے کہا، ”مَیں تیری خِدمت کرتا ہُوں اور کبھی تیری حُکم عدُولی نہیں کی۔ مگر مُجھے تُو نے کبھی خُوشی منانے نہ دِی۔“۱۶

شفِیق باپ نے جواب دِیا، ”پیارے بیٹے، جو کُچھ میرا ہے وہ تیرا ہی ہے! یہ اِنعامات یا تقریبات کا موازنہ کرنے کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ شِفا یابی کے بارے میں ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جِس کی ہم اِن تمام برسوں سے آس لگائے ہُوئے تھے۔ تیرا یہ بھائی مُردہ تھا، اب زِندہ ہُوا! کھویا ہُوا تھا، اب مِلا ہے!“۱۷

ہمارے دَور کے لیے تمثیل

میرے پیارے بھائیو اور بہنو، پیارے دوستو، نجات دہندہ کی ساری تمثیلوں کی طرح، یہ صِرف اُن لوگوں کے بارے میں نہیں ہے جو بُہت پہلے گُزر چُکے ہیں۔ آج، یہ آپ کے اور میرے بارے میں ہے۔

ہم میں سے کون ہے جو مُقدّس راستے سے نہیں بھٹکا، یہ سوچ کر کہ ہم اپنی خُود غرضی کے راستے پر زیادہ خُوشی پا سکتے ہیں؟

ہم میں سے کون ہے جو مُعافی اور رحم پانے کی خاطر فروتن، شِکستہ دِل، اور بے تاب نہ ہُوا ہو؟

شاید بعض نے سوچا ہو، ”کیا واپس جانا مُمکن بھی ہے؟“ کیا مُجھ پر ہمیشہ کے لیے لیبل لگا دیا جائے گا، رَد کِیا گیا، اور اپنے سابق دوستوں کا دُھتکارا ہُوا؟ کیا بس گُمراہ رہنا بہتر ہے؟ اگر مَیں واپس جانے کی کوشش کرُوں گا تو خُدا کیسا سلُوک کرے گا؟

یہ تمثِیل ہمیں جواب دیتی ہے۔

ہمارا آسمانی باپ ہماری طرف دوڑا چلا آئے گا، اُس کا دِل محبّت اور شفقت سے لبریز ہے۔ وہ ہمیں گلے لگائے گا، ہمیں اچھّے سے اچّھا لِباس نِکال کر پہنائے گا، ہمیں ہاتھ میں انگُوٹھی، ہمارے پاؤں میں جُوتی پہنائے گا، اور اعلان کرے گا، ”آج ہم خُوشی منائیں! کیوں کہ میرا بچّہ، جو مُردہ تھا، اب زِندہ ہو گیا ہے!“

ہمارے لَوٹ آنے پر آسمان شادمان ہوگا۔

ناقابلِ بیان اور جلال سے بھری ہُوئی خُوشی

کیا مَیں ابھی تھوڑا وقت نِکال کر آپ سے اِنفرادی طور پر بات کروں؟

اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ماضی میں کُچھ بھی ہُوا ہو، مَیں اپنے پیارے دوست اور ساتھی رسُول بُزرگ جیفری آر ہالینڈ کے اَلفاظ کو دوہراتا اور اعلان کرتا ہُوں: ”یہ مُمکن ہی نہیں کہ آپ مسِیح کی [کَفارہ بخش قُربانی] کی لامحدُود تجلی سے نیچے تہ نشین ہو جائیں۔“۱۸

اگرچہ فیصلے آپ کو نجات دہندہ اور اُس کی کلِیسیا سے بُہت دُور لے گئے ہوں گے، لیکن مالک و شافی اِس راستے پر کھڑا ہے جو گھر کی طرف جاتا ہے، وہ آپ کا اِستقبال کرتا ہے۔ اور ہم کلِیسیائے یِسُوع مسِیح کے اَرکان کی حیثیت سے باپ کی پیروی کرنے کے مُشتاق ہیں اور آپ کو اپنے بھائی اور بہن، اور اپنے دوست سمجھ کر گلے لگاتے ہیں۔ ہم آپ کے ساتھ شادمان ہوتے اور خُوشی مناتے ہیں۔

آپ کی واپسی سے دوسروں کی نعمتیں کم نہیں ہوں گی۔ کیوں کہ باپ کا فضل لامحدُود ہے، اور جو کُچھ کسی کو دیا جاتا ہے اُس سے دُوسروں کے پَیدایشی حق میں ذرا بھی کمی نہیں ہوتی۔۱۹

مَیں یہ دکھاوا نہیں کرتا کہ واپس آنا آسان کام ہے۔ مَیں اُس کی گواہی دے سکتا ہُوں۔ یہ، حقیقت میں، سب سے زیادہ مُشکل فیصلہ ہوسکتا ہے جو آپ کبھی کریں گے۔

بلکہ مَیں گواہی دیتا ہُوں کہ جِس لمحے آپ واپس آنے اور اپنے نجات دہندہ اور مُخلصی دینے والے کے راستے پر چلنے کا فیصلہ کریں گے، اُس کی قُدرت آپ کی زِندگی میں داخل ہو گی اور آپ تبدیل ہو جائیں گے۔۲۰

آسمان پر فرِشتے خُوشی منائیں گے۔

اور اِسی طرح ہم، مسِیح میں آپ کا خاندان۔ بالآخِر، ہم جانتے ہیں کہ مُسِرف بننے سے کیا مُراد ہے۔ ہم سب روزانہ مسِیح کی اِسی کَفارہ کی قُدرت پر توکّل کرتے ہیں۔ ہم اِس راستے کو جانتے ہیں، اور ہم آپ کے ساتھ اِس پر چلیں گے۔

نہیں، ہمارا راستا غم، رنج یا مایُوسی سے خالی نہیں ہوگا۔ اَلبتہ ہم یہاں تک پہنچ گئے ہیں ”مسِیح کے کلام کے وسِیلے سے اُس پر اَٹل اِیمان رکھتے ہُوئے، پُورے طور پر اُس کی رحمتوں پر توکّل کرتے ہُوئے جو کہ بچانے میں قادِر ہے۔“ اور ہم اِکٹھے ”مسِیح میں ثابت قدمی کے ساتھ، کامِل درخشاں اُمید پا کر، اور خُدا اور کُل بنی نوع [اِنسان] کی محبّت میں آگے بڑھتے ہیں۔“۲۱ اِکٹھے، ہم ” اَیسی خُوشی مناتے ہیں جو بیان سے باہر اور جلال سے بھری ہے۔“۲۲ کیوں کہ یِسُوع مسِیح ہماری قُوّت ہے!۲۳

میری دُعا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک سُن لے، اِس گہری تمثیل میں، باپ کی آواز ہمیں گھر کی طرف جانے والے راستے پر داخل ہونے کے لیے بُلا رہی ہے—تاکہ ہم تَوبہ کرنے، مُعافی پانے، اور اِس راستے پر چلنے کی ہمت پَیدا کر سکیں جو ہمارے مہربان اور رحیم خُدا کی طرف واپس لے جاتا ہے۔ مَیں اِس کی گواہی دیتا ہُوں اور آپ کو اپنی برکت دیتا ہُوں یِسُوع مسِیح کے نام پر، آمین۔

حوالہ جات

  1. لُوقا ۱۵ میں، پائی جانے والی تِین تمثیلوں میں سے ایک ہے (کھوئی ہُوئی بھیڑ، گُم شُدہ سِکہ، اور کھویا ہُوا بیٹا) جو کھوئی ہُوئی چِیزوں کی قدر اور اُس خُوشی کو ظاہر کرتی ہے جب کھوئی ہُوئی چِیز مِل جاتی ہے۔

  2. لُوقا ۱۹:‏۱۰۔

  3. لُوقا ۱۵:‏۱۱۔

  4. یہ بیٹا غالباً نوعُمر تھا۔ وہ غیر شادی شُدہ تھا، جو اُس کی نوعُمری کی طرف اِشارہ ہو سکتا ہے، لیکن اِتنا کم عُمر نہیں تھا کہ وہ اپنی وراثت کا مُطالبہ کرنے اور اُسے حاصل کرنے کے بعد گھر چھوڑنے کے قابل نہیں تھا۔

  5. یہودی قانون اور روایت کے مُطابق، دو بیٹوں میں سے بڑا بیٹا باپ کی وراثت کے دوتہائی حِصّے کا حق دار تھا۔ اِس لیے چھوٹا بیٹا ایک تہائی حِصّہ کا حق دار تھا۔ (دیکھیں اِستِثنا ۲۱:‏۱۷۔)

  6. دیکھیں لُوقا ۱۵:‏۱۳۔

  7. دیکھیں لُوقا ۱۵:‏۱۴۔

  8. لُوقا ۱۵:‏۱۶۔

  9. یہودیوں کے لِیے، سُور ”ناپاک“ تصُّور کِیے جاتے تھے (دیکھیے اِستِثنا ۱۴:‏۸) اور حرام تھے۔ پرہیز گار یہودی خنزیر کو نہیں پالتے تھے، جو اِس بات کی نِشان دہی کرتا ہے کہ غیر قوم کا فرد دیکھ بھال کرتا تھا۔ یہ یہ بھی بتا سکتا ہے کہ نوجوان بیٹے نے یہودیوں کی رسُوم سے دُور رہنے کے لیے کتنا سفر کِیا تھا۔

  10. بُزرگ نیل اے میکس ویل نے سِکھایا: ”بے شک، کلام کے سبب سے فروتن ہونا پسندیدہ ہے، بہ نِسبت حالات کی وجہ سے ہم [فروتن بنیں]، لیکن بعد والی حالت بھی کارآمد ہے! (دیکھیے ایلما ۳۲:‏۱۳–۱۴)۔ کال رُوحانی بھوک کو جنم دے سکتا ہے“ (”دُنیا کی رسا کشیاں،“ لیحونا، جنوری ۲۰۰۱، ۴۵)۔

  11. لُوقا ۱۵:‏۱۷۔

  12. دیکھیں لُوقا ۱۵:‏۲۰۔

  13. دیکھیں لُوقا ۱۵:‏۱۸–۱۹، ۲۱۔

  14. دیکھیں لُوقا ۱۵:‏۲۲–۲۴۔

  15. یاد رہے چھوٹے بیٹے کو اُس کی وِراثت مِل چُکی تھی۔ بڑے کے لیے، جِس کا مطلب تھا کہ باقی سب کُچھ اُس کا تھا۔ چھوٹے بیٹے کو کُچھ بھی دینے کا مطلب یہ ہوگا کہ اُس کے ساتھ رہنے والے بیٹے سے چھین لینا۔

  16. دیکھیں لُوقا ۱۵:‏۲۹۔

  17. دیکھیں لُوقا ۱۵:‏۳۱–۳۲۔

  18. جیفری آر ہالینڈ، ”تاکسِتان میں مزدُور،“ لیحونا، مئی ۲۰۱۲، ۳۳۔

  19. جو کُچھ کسی کو دِیا جاتا ہے اُس سے دُوسروں کے پیدایشی حق میں ذرا بھی کمی نہیں ہوتی۔ نجات دہندہ نے یہ تعلِیم اُس وقت سِکھائی جب اُس نے مزدوروں کی تمثیل بیان کی متّی ۲۰:‏۱–۱۶۔

  20. دیکھیں ایلما ۳۴:‏۳۱۔

  21. ۲ نِیفی ۳۱:‏۱۹–۲۰۔

  22. ۱ پطرس ۱:‏۸۔

  23. دیکھیں زبُور ۲۸:‏۷۔