مجلسِ عامہ
بیٹے کا نفیس تحفہ
مجلسِ عامہ اکتوبر ۲۰۲۰


بیٹے کا نفیس تحفہ

یِسُوع مسِیح کے ذریعے، ہم اخلاقی ناکامیوں کی وجہ سے مستحق تکالیف سے بچ سکتے ہیں اور فانی بدقسمتی سے ملنے والی تکلیفوں جن کے ہم مستحق نہ بھی ہوں اُن پر غالب آ سکتے ہیں۔

پچھلی گرمیوں میں آ، میرے پیچھے ہولے میں مورمن کی کتاب کا ایک سبق پڑھتے ہوئے مجھے ایلما کی اِس تحریر نے بڑا متاثر کیا، کہ جب وہ اپنے سب گناہوں کے بارے میں مکمل طور پر آگاہ ہوا تو اور کچھ بھی اِس سے زیادہ اور اتنا شدید اور تلخ نہیں ہو سکتا جتنے کہ [اُس کے] دکھ تھے۔ ۱ میں مانتا ہوں کہ شدید دکھ کی بات پر میری توجہ اِس لیے بھی گئی کیونکہ اُس ہفتے گردے کے سات ملی میٹر کے پتھر کے ساتھ میری جنگ ہوئی تھی۔ کبھی بھی کسی ایک شخص نے ”ایسی بڑی چیزوں“ کا تجربہ نہیں پایا ہو گا جب ”سادہ اور چھوٹی“ چیزوں کا ”گزر“ ہوتا ہے۔ ۲

ایلما کے استعمال کیے ہوئے الفاظ اِس لیے بھی توجہ طلب ہوئے کیونکہ مورمن کی کتاب کے انگریزی ترجمے میں لفظ شدید، عام طور پر بے حد خوبصورتی اور بے مثال شان کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، جوزف سمتھ نے مشاہدہ کیا کہ مرونی فرشتے کا چوغہ ”انتہائی سفید“ تھا، ”[اُس کی] سفیدی کسی بھی دُنیاوی شے سے کہیں زیادہ بڑھ کر تھی۔“ ۳ لیکن لفظ شدید بُری چیزوں کی انتہائی شدت کے معنی بھی رکھتا ہے۔ یوں ایلما اور لغات لفظ شدید تکلیف کو ”ایذا“، ”ستم“ اور ”تکلیف“ کے بد ترین درجے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ۴

ایلما کا تشبیہی خاکہ اِس سنجیدہ حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ کسی نہ کسی وقت، ہمیں سرزد ہر گناہ کے احساسِ خطا کا پورا کرب سہنا ہی پڑتا ہے۔ یہ انصاف کا تقاضا ہے اور خُدا خود بھی اِسے تبدیل نہیں کر سکتا۔ ۵ جب ایلما کو اپنے ”سب “ گناہ یاد آئے—خاص طور پر وہ جنہوں نے دوسروں کے ایمان کو تباہ کیا—تو اُس کی تکلیف ناقابلِ برداشت ہو گئی اور خُدا کے سامنے جوابدہ ہونے کے خیال نے اُسے ”ناقابلِ بیان خوف “ سے بھر دیا۔ اُس نے چاہا کہ وہ ”جان اور جسم دونوں اعتبار سے صفحہِ ہستی سے مٹ جائے۔“ ۶

ایلما کے لیے سب چیزیں تب بدل گئیں جب ”اُس کو یہ خیال سوجھا“ کہ نبوت کے مطابق ”یِسُوع مسِیح نامی ایک شخص … دنیا کے گناہوں کے کفارے کے لیے آئے گا“ اور اُس نے ”[اپنے] دل میں فریاد کی، اے یِسُوع، تو جو خُدا کا بیٹا ہے مجھ پر رحم کر۔“ اِس ایک خیال اور فریاد کی بدولت ایلما کی جان جس قدر ”شدید“ تکلیف میں مبتلا تھی اُسی قدر ”شدید“ خوشی سے معمور ہوگئی۔ ۷

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ توبہ کا مقصد یہ ہے کہ کسی مخصوص غمی کو لے کر اُسے خالص خوشی میں بدل دے۔ شکر ہے کہ اُس کی ”فوری بھلائی“ ۸ کا کہ جس لمحے ہم مسِیح پر رجوع لاتے ہیں—اُس پر ایمان اور دل کی حقیقی تبدیلی کا اظہار کرتے ہوئے—تو ہمارے گناہوں کا کچل دینے والا بوجھ ہماری پیٹھ سے اُس کی پیٹھ پر جانا شروع ہو جاتا ہے۔ ایسا صرف اِس لیے ممکن ہے کہ وہ جو گناہ سے مُبرا تھا اُس نے اپنی تمام مخلوقات کے لیے، اپنی تخلیق کردہ کائنات کا ہر گناہ کی ”لا محدود اور ناقابِلِ بیان اذیت“ ۹ جھیلی، ایسی اذیت کہ اُس کے ہر مسام سےخون نکل آیا۔ براہِ راست ذاتی تجربے سے، نجات دہندہ ہمیں تنبیہ کرتا ہے کہ ہمیں اندازہ نہیں ہے کہ اگر ہم توبہ نہ کریں تو ہماری ”تکلیف“ کس قدر ”شدید“ ہو گی۔ لیکن پھر وہ ناقابلِ ادراک فراخدلی سے کہتا ہے ”دیکھو، میں خُدا نے یہ چیزیں سب کے لیے جھیلی ہیں تا کہ اگر وہ توبہ کریں تو اُنہیں یہ جھیلنا نہ پڑے“ ۱۰ —ایسی توبہ جو ہمیں اِس قابل بناتی ہے کہ ہم وہ ”عظیم خوشی“ پا سکیں جو ایلما نے پائی۔ ۱۱ اور اِس واحد تعلیم پر ہی ”میں حیران ہوتا ہوں۔“ ۱۲ لیکن حیران کُن بات یہ کہ مسِیح اِس سے بھی زیادہ کی پیش کش کرتا ہے۔

بعض اوقات شدید تکلیف گناہ کی وجہ سے نہیں بلکہ غلطیوں، دوسروں کے کاموں یا ہمارے قابو سے باہر کی چیزوں کی وجہ سے ملتی ہے۔ ایسے لمحوں میں ہو سکتا ہے کہ ہم راستباز زبور نویس کی طرح نوحہ کریں:

”میرا دل مجھ میں بے تاب ہے اور موت کا ہول مجھ پر چھا گیا ہے۔

”… اور خوف مجھ پر طاری ہے۔

… کاش کہ کبوتر کی طرح میرے پر ہوتے تو میں اُڑ جاتا، اور پھر میں آرام پاتا۔“ ۱۳

طبی سائنس، پیشہ وارانہ مشاورت یا قانونی چارہ جوئی ہماری تکلیف میں کمی لا سکتے ہیں۔ لیکن دیکھیں کہ تمام اچھی نعمتیں—بشمول اِن کے—نجات دہندہ کی طرف سے ملتی ہیں۔ ۱۴ ہماری بد ترین تکالیف اور پریشانیوں کی وجوہات سے قطع نظر، راحت کا آخری منبع ایک ہی ہے، یِسُوع مسِیح۔ صرف وہی تمام خطاؤں کی درستگی، ہر غلطی کی تصحیح، ہر ادھورے پن کی تکمیل، ہر زخم کی شفا اور تاخیر شدہ ہر برکت باہم پہنچانے کی کُل قدرت اور مرہم کا مالک ہے۔ قدیم گواہوں کی طرح میں بھی گواہی دیتا ہوں ”کیونکہ ہمارا ایسا سردار کاہن نہیں جو ہماری کمزوریوں میں ہمارا ہمدرد نہ ہو سکے،“ ۱۵ بلکہ ہمارا مخلصی دینے والا محبت سے معمور ہے جو اپنے تخت سے اُترا اور ”ہر قسم کی تکلیفوں اورآزمائشوں میں پڑا… تاکہ وہ جانے… کہ اپنے لوگوں کی مدد کیسے کی جائے۔“ ۱۶

آج اگر کوئی ایسا ہے جس کی تکالیف اتنی شدید اور نرالی ہیں کہ آپ کو لگے کہ کوئی بھی مکمل طور پر اُن کو سمجھ نہیں سکتا تو ممکن ہے کہ آپ ٹھیک کہہ رہے ہوں۔ شاید خاندان کا کوئی رکن، دوست، یا کہانتی رہنما نہ ہو—چاہے وہ کتنے ہی حساس اور اچھی نیت والے کیوں نہ ہوں—جو جانتا ہو کہ آپ کیا محسوس کر رہے ہیں یا جس کے پاس آپ کو شفا دینے کے لیے عین ضروری الفاظ ہوں۔ لیکن یہ جان لیں: کہ ایسا ایک ہے جو آپ کے احساسات کو مکمل طور ہر جانتا ہے اور جو ”ساری دنیا سے زیادہ طاقت ور ہے،“ ۱۷ اور جو ”ہماری درخواست اور خیال سے بہت زیادہ کام کر سکتا ہے۔“ ۱۸ یہ سلسلہ اُسی کے طریقے اور وقت کے مطابق ہو گا لیکن مسِیح آپ کی تکلیف کے ہر پہلو کے ہر ذرے کو شفا دینے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔

جب آپ اُس کو ایسا کرنے دیتے ہیں تو آپ جانیں گے کہ آپ کی تکلیف بے مقصد نہیں تھی۔ بائبل کے عظیم ہیرو اور اُن کی تکالیف کی بات کرتے ہوئے پولُس رسول کہتا ہے ”خُدا … نے اُن کی تکلیفوں کے ذریعے اُن کے لیے بہتر چیز تجویز کی تھی کیونکہ وہ تکلیف کے بغیر کامل نہیں کیے جا سکتے۔“ ۱۹ دیکھیں خُدا کی فطرت اور ہماری زمینی موجودگی کا مقصد خوشی ۲۰ حاصل کرنا ہے، لیکن ہم اُن تجربات کے بغیر الہی خوشی سے معمور حامل کامل ہستیاں نہیں بن سکتے جو بعض اوقات دل کی گہرائی تک ہمارا امتحان لیں گے۔ پولُس رسُول کہتا ہے کہ نجات دہندہ خود ابدی طور پر ”دکھوں کے ذریعے کامل [یا مکمل] کیا گیا۔“ ۲۱ سو ابلیسی سرگوشیوں سے محتاط رہیں کہ اگر آپ بہتر شخص ہوتے تو آپ ایسی آزمائشوں سے بچ جاتے۔

آپ کو اِس سے منسلکہ جھوٹ کی مزاحمت بھی کرنی ہے کہ آپ اپنی تکلیفوں کے باعث خُدا کے اُن چنیدہ لوگوں کے حلقے سے باہر ہیں؛ جو یوں لگتا ہے کہ ایک با برکت حالت سے دوسری میں چلتے جاتے ہیں۔ بلکہ اپنے آپ کو ایسے ہی دیکھیں جیسے یوحنا عارف نے اپنے شاندار مکاشفے میں ایّامِ آخِر کو دیکھا۔ کیونکہ یوحنا نے ”بڑی بھیڑ دیکھی ہر ایک قوم اور قبیلہ اور اُمت اور اہلِ زبان کی ایسی بڑی بھیڑ جسے کوئی شمار نہیں کر سکتا [جو] سفید جامے پہنے تخت اور برہ کے آگے گھڑی ہے … [جو] بڑی آواز سے چلا چلا کر کہتی ہے کہ نجات ہمارے خُدا کی طرف سے ہے۔“ ۲۲

اور جب پوچھا گیا ”یہ سفید جامے پہنے ہوئے کون ہیں؟ اور کہاں سے آئے ہیں؟ یوحنا کو جواب ملا ”یہ وہ ہیں جو اُس بڑی مصیبت سے نکل کر آئے ہیں اور اُنہوں نے اپنے جامے برے کے خون سے دھو کر سفید کیے ہیں۔“ ۲۳

بھائیو اور بہنو ہمیشہ یاد رکھیں راست بازی میں تکلیف براشت کرنا آپ کو خُدا کے برگزیدہ ہونے کا اہل بناتا ہے نہ کہ آپ کو اُن سے علیحدہ کرتا ہے۔ اور اُن کے وعدوں کو آپ کے وعدے بناتا ہے۔ یوحنا کے مطابق ”اِس کے بعد نہ کبھی اُن کو بھُوک لگے گی نہ پیاس اور نہ کبھی اُن کو دھُوپ ستائے گی نہ گرمی۔ کِیُونکہ جو برّہ تخت کے بِیچ میں ہے وہ [آپ] کی گلّہ بانی کرے گا اور اُنہِیں آبِ حیات کے چشموں کے پاس لے جائے گا: اور خُدا [آپ کی] آنکھوں کے سب آنسُو پونچھ دے گا۔“ ۲۴

”اور نہ مَوت رہے گی، اور نہ ماتم رہے گا، نہ آہ و نالہ نہ دَرد۔“ ۲۵

میں آپ کو گواہی دیتا ہوں کہ یِسُوع مسِیح کی بڑی بھلائی اور مخلصی بخش کفارہ کے ذریعے ہم اخلاقی ناکامیوں کی وجہ سے مستحق تکالیف سے بچ سکتے ہیں اور فانی بدقسمتی سے ملنے والی تکلیفوں جن کے ہم مستحق نہ بھی ہوں اُن پر غالب آ سکتے ہیں۔ اُس کے زیر ہدایت آپ کا الہی مقدر لاثانی طور پر شاندار اور ناقابلِ بیان خوشی پر مبنی ہے—ایسی خوشی جو اتنی شاندار ہے جو ”کسی بھی زمینی چیز“ سے بڑھ کر ہے۔ ۲۶ میری دعا ہے کہ آپ یہ خوشی اب پائیں اور ہمیشہ اِس سے معمور رہیں، میں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ وہی کریں جو ایلما نے کیا: اپنے ذہن کو خُدا کے بیٹے کے اِس عظیم تحفے کو مضبوطی سے تھامنے دیں، وہ تحفہ جسے اُس کی انجیل کے ذریعے سے منکشف کیا گیا ہے، اُس کی زندہ اور سچی کلیسیا۔ یِسُوع مسِیح کے نام سے آمین۔