مجلسِ عامہ
تمدّنِ مسِیح
مجلسِ عامہ اکتوبر ۲۰۲۰


تمدّنِ مسِیح

درحقیقت، ہم سب، اپنی انفرادی زمینی ثقافتوں کی عمدہ چیزوں کو عزیز رکھ سکتے ہیں اور ابدی تمدن کے بھرپور شرکا ہو سکتے ہیں جو یِسُوع مسِیح کی اِنجیل سے آتا ہے۔

ہم کتنی ہی عمدہ دنیا میں رہتے ہیں جو مشترکہ طور پر آباد ہے، جس میں قوم، زبان، رواج اور تاریخ کا ایک بہت بڑا تنوع ہے—جو کہ سینکڑوں ممالک اور ہزاروں گروہوں میں پھیلی ہوئی ہے، ہر ایک ثقافت سے مالا مال ہے۔ بنی نوع انسان کے پاس فخر کرنے اور خُوشی منانے کے لیے بہت کچھ ہے۔ اگرچہ یہ فاضل رویہ ہے—وہ چیزیں جن سے ہم ثقافتوں سے روشناس ہو کر پروان چڑھے ہیں—وہ ہماری زندگی میں ایک بہت بڑی طاقت ثابت ہوسکتی ہے، لیکن یہ، بعض اوقات، ایک اہم رکاوٹ بھی بن سکتی ہے۔

ایسا لگ سکتا ہے کہ ثقافت ہماری سوچ میں گہرے طور پر رچ بس چُکی ہے اور اِس رویے کو بدلنا ناممکن ہے۔ بہرحال، زیادہ تر جو کچھ ہم محسوس کرتے ہیں وہ ہمیں بیان کرتا ہے اور جس سے ہمیں اپنی شناخت کا احساس ہوتا ہے۔ یہ اتنا قوی اثر ہو سکتا ہے کہ ہم اپنی ثقافتوں میں ساختہِ بشر کمزریوں اور خامیوں کو دیکھنے میں ناکام ہو سکتے ہیں، جس کے نتیجے میں ہم اپنے اصلاف کی کچھ روایات کو ترک کرنے سے گریزاں ہوتے ہیں۔ کسی کی اپنی ثقافتی پہچان سے جنونی دلچسپی قابلِ قدر، حتیٰ کہ—دیندار— تجاویز، خصائل، اور رویوں کو رد کرنے کی طرف لے جا سکتی ہے۔

چند برس قبل میں ایک شاندار محترم شخص کوجانتا تھا جس نے ثقافتی کوتاہ نظری کے اِس آفاقی اِصول کی وضاحت کرنے میں مدد کی۔ میں اُس سے پہلی مرتبہ سنگاپور میں مِلا جب مجھے اُس کے خاندان کا خاندانی معلم مقرر کیا گیا تھا۔ سنسکرت اور تامل کا ممتاز پروفیسر، وہ ہندوستان کے جنوب سے تھا۔ اُس کی شاندار بیوی اور دو بیٹے کلِیسیا کے رکن تھے، مگر اُس نے کبھی بھی شمولیت اختیار نہ کی تھی اور نہ ہی اِنجیل کی تعلیمات کو زیادہ سُنا تھا۔ جس انداز سے اُس کی بیوی اور بیٹے ترقی کر رہے تھے وہ اُس سے خُوش تھا اور اُن کے معاہدوں اور کلِیسیائی ذمہ داریوں میں مکمل طور پر اُن کی تائید و حمایت کرتا تھا۔

جب میں نے اُس کے ساتھ اصولِ انجیل اور اپنے عقائد بانٹنے کی بات کی، ابتدائی طور پر اُس نے انکار کر دیا۔ مجھے یہ سمجھنے میں کچھ وقت لگا کہ کیوں: وہ محسوس کرتا تھا کہ ایسا کرنے سے وہ اپنے ماضی، اپنے لوگوں، اور اپنی تاریخ کا غدار بن جائے گا! اُس کے انداز فکر سے، وہ اُس سب کا منکر ہو گا جو وہ تھا، ہر بات جو اُس کے خاندان نے اُسے سِکھائی تھی، اُس کا اپنا ہندوستانی ورثہ۔ اگلے چند ماہ میں، ہم اِن مسائل کے بارے میں بات کرنے کے قابل ہو گئے۔ میں مرغوب ہوا (مگر حیران نہیں!) کہ کیسے یِسُوع مسِیح کی انجیل اُس کی آنکھوں کو ایک مختلف نقطہِ نظر کے لیے کھولنے کے قابل تھی۔

زیادہ تر بشری ساختہ ثقافتوں میں دونوں اچھے اور بُرے، تعمیری اور تخریبی عناصر پائے جاتے ہیں۔

ہماری دُنیا کے زیادہ تر مسائل اِن ثقافتوں سے اُٹھتے متضاد خیالات اوررسوم و رواج کے مابین تصادم کا براہ راست نتیجہ ہیں۔ مگر اصل میں سب جھگڑے اور ابتری جلد ہی کافور ہو جائیں گے اگر دُنیا اپنے ”اصلی تمدّن،“ کو قبول کر لے جِس کے حامل ہم سب کچھ عرصہ پہلے تھے۔ اِس تمدّن کی تاریخ ہمارے قبل از فانی وجود تک جاتی ہے۔ یہ آدم اور حنوک کا تمدّن تھا۔ یہ زمانہِ نصف النہار میں مُنجی کی تعلیمات پر قائم تمدّن تھا، اور یہ ہمارے زمانہ میں تمام مرد و زن کے لیے دستیاب ہے۔ یہ منفرد ہے۔ یہ تمام تمدّنوں سے عظیم ترین تمدّن ہے اور خُوشی کے عظیم منصوبہ سے نکلتا ہے، خُدا اِس کا مصنف اور مسِیح رکھوالا ہے۔ یہ تقسیم کرنے کی بجائے متحد کرتا ہے۔ یہ گزند پہنچانے کی بجائے راحت بخشتا ہے۔

یِسُوع مسِیح کی اِنجیل ہمیں سِکھاتی ہے کہ زِندگی با مقصد ہے۔ یہاں ہمارا وجود محض کائناتی حادثہ یاغلطی نہیں ہے۔ ہم یہاں کسی وجہ سے ہیں!

یہ تمدن اِس گواہی پر مبنی ہے کہ ہمارا آسمانی باپ موجود ہے، وہ حقیقی ہے اور ہم میں سے ہر ایک کو فرداً فرداً محبت کرتا ہے۔ ہم اُس کا ”کار اور [اُس] جلال ہیں۔“ ۱ یہ تمدن مساوی قدر کی حمایت کرتا ہے۔ یہاں ذات پات یا طبقے کی کوئی پہچان نہیں۔ بہر حال، ہم سب، بھائی اور بہن ہیں، اپنے آسمانی والدین کے حقیقی—روحانی بچے۔ تمام تمدنوں سے عظیم ترین تمدن میں یہاں کوئی متعصب یا ”ہم بمقابلہ وہ“ ذہنیت نہیں ہے۔ ہم سب ”ہم“ ہیں۔ ہم سب ”وہ“ ہیں۔ ہم ایمان رکھتے ہیں کہ ہم خُود اپنے، ایک دُوسرے، کلِیسیا، اور اپنی دُنیا کے ذمہ دار اور جواب دہ ہیں۔ ہماری بالیدگی میں ذمہ داری اور جواب دہی اہم عوامل ہیں۔

خالص محبت، مسِیح جیسی سچی نگہداشت اِس تمدن کا سنگِ بنیاد ہے۔ ہم اپنے ساتھی انسانوں کی، مادی و رُوحانی ضروریات کے لیے حقیقی فکر محسوس کرتے ہیں، اور اُن احساسات پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ یہ تعصب اور نفرت کو دور کرتا ہے۔

ہم خُدا کے کلام پر مرکوز، جیسے انبیاء پاتے ہیں (اور رُوحُ القُدس کے ذریعے ہم سب کے لیے ذاتی طور پر قابل تصدیق) مکاشفہ کے تمدن سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ تمام بنی نوع انسان خُد اکی مرضی و منشا کو جان سکتے ہیں۔

یہ تمدن مختاری کے اصول کا محافظ ہے۔ ہماری بالیدگی اور ہماری خُوشی کے لیے انتخاب کرنے کی اہلیت انتہائی اہم ہے۔ دانائی سے منتخب کرنا لازم ہے۔

یہ سیکھنے اور مطالعہ کرنے کا تمدن ہے۔ ہم علم و دانش اور ہر چیز میں بہترین کے طلبگار ہیں۔

یہ ایمان و فرمان بردای کا تمدن ہے۔ ہمارے تمدن کا اولین اصُول یِسُوع مسِیح پر ایمان اور اُس کی تعلیمات اور فرامین کی فرمان برداری اِس کا نتیجہ ہے۔ یہ ضبطِ نفس کو اُجاگر کرتے ہیں۔

یہ دُعا کا تمدن ہے۔ ہم ایمان رکھتے ہیں کہ خُدا نہ صرف ہمیں سُنتا ہے بلکہ وہ ہماری مدد بھی کرتا ہے۔

یہ عہود و رسومات، اعلیٰ اخلاقی معیارات، قربانی، معافی، اور توبہ، اور اپنے بدنوں کی ہیکل کی دیکھ بھال کرنے کا تمدن ہے۔ یہ سب خُدا سے ہماری لگن کا ثبوت دیتی ہیں۔

اِس تمدن میں کہانت، خُدا کے نام میں عمل کرنے کے اختیار، اپنے بچوں کو برکت دینے کی خُدا کی قدرت سے حکمرانی کی جاتی ہے۔ یہ افراد کو بہتر لوگ، راہ نما، مائیں، باپ، اور ساتھی بننے کے قابل اور بہتر بناتی ہے—اور یہ گھر کو پوتر کرتی ہے۔

تمام تمدنوں میں سے قدیم ترین میں، یِسُوع مسِیح پر ایمان، کہانت کی قوت، دُعا، ذاتی بہتری، سچی تبدیلی، اور معافی سے رونما حقیقی معجزوں کی فراوانی ہے۔

یہ کارِ تبلیغ کا تمدن ہے۔ روحوں کی قدروقیمت عظیم ہے۔

تمدنِ مسِیح میں، خواتین کو اُن کی مناسب اور ابدی حالت میں بلند کیا جاتا ہے۔ وہ مردوں کے تابع نہیں ہیں، جیسا کہ آج کی دنیا میں بہت ساری ثقافتوں میں ہے، بلکہ یہاں اور آنے والی دنیا میں مکمل اور مساوی شراکت دار ہیں۔

یہ تمدن خاندان کے تقدس پر پابندی عائد کرتا ہے۔ خاندان ابدیت کی بنیادی اکائی ہے۔ خاندان کی کاملیت کسی بھی قربانی کے قابل ہے کیونکہ، جیسے سِکھایا گیا ہے، ”کوئی بھی کامیابی گھر میں ناکامی کی تلافی نہیں کر سکتی۔“ ۲ گھر ہی ہے جہاں ہمارے بہترین کام سر زد ہوتے ہیں اور جہاں ہمیں عظیم ترین خُوشی حاصل ہوتی ہے۔

تمدنِ مسِیح میں نقطہِ نظر—اور ابدی مرکزِتوجہ اور سمت ہے۔ یہ تمدن دیرپا قابلِ قدر چیزوں سے متعلق ہے۔ یہ یِسُوع مسِیح کی انجیل سے آتا ہے، جو کہ ابدی ہے، اور یہ ہمارے وجود کے کیوں، کیا اور کہاں کی وضاحت کرتا ہے۔ (یہ شامل کرنے والا ہے، نکالنے والا نہیں ہے۔) چونکہ یہ تمدن ہمارے مُنجی کی تعلیمات کے اطلاق کا نتیجہ ہے یہ ایسا روغن شِفا مہیا کرتا ہے جس کی ہماری دُنیا کو اشد ضرورت ہے۔

ایسے عالی اور نجیب طرز زندگی کا حصہ ہونا کیسی برکت ہے! تمام تمدنوں سے عظیم ترین اِس تمدن کا حصہ ہونے کے لیے، تبدیلی کی ضرورت ہو گی۔ نبیوں نے سکھایا ہے کہ ہمارے پُرانے تمدنوں میں جو کچھ بھی تمدنِ مسِیح سے مطابقت نہیں رکھتا اُسے پیچھے چھوڑنا ضروری ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہمیں ہر چیز پیچھے چھوڑنی ہے۔ انبیاء نے اِس پر بھی زور دیا ہے کہ ہم، سب کو، اپنے ایمان اور صلاحیتوں اور علم—وہ سب جو ہماری زندگیوں میں اور ہمارے انفرادی تمدنوں میں اچھا ہے—اُسے اپنے ساتھ لانے کے لیے مدعو کیا گیا ہے اور کلِیسیا کو انجیل کے پیغام کے ذریعے ”اِس میں اضافہ“ کرنے دیں۔ ۳

کلِیسیائے یِسُوع مسِیح برائے مُقدّسینِ آخِری ایّام مغربی معاشرہ یا امریکی ثقافتی رجحان نہیں ہے۔ یہ بین القوامی کلِیسیا ہے، جیساکہ ہمیشہ ہونا مقصود تھا۔ اِس سے کہیں بڑھ کر، یہ مافوق الفطرت ہے۔ دنیا بھر سے نئے اراکین ہمارے سدا بڑھتے ہوئے خاندان میں فراوانی، تنوع اور جوش و خروش لاتے ہیں۔ مُقدّسینِ آخِری ایّام ہر کہیں اب بھی اپنے ذاتی ورثہ اور ہیرو کی توقیر کرتے ہیں مگر اب وہ کسی بہت بڑی چیز کا حصہ ہیں۔ تمدنِ مسِیح ہمیں خُود کو ویسے دیکھنے میں مدد کرتا ہے جیسے ہم واقعی ہیں، اور جب ابدیت کے تناظر میں دیکھا جائے، راستبازی سے متوازن، یہ خُوشی کے عظیم منصوبہ کو پورا کرنے کی ہماری صلاحیت کو بڑھانے کے لیے کام کرتا ہے۔

پس میرے دوست کا کیا ہوا؟ خِیر، اُسے اسباق سِکھائے گئے اور اُس نے کلِیسیا میں شمولیت اختیار کی۔ تب سے اُس کا خاندان سڈنی آسٹریلیا ہیکل میں سربمہر ہو چُکا ہے۔ اُس نے بہت تھوڑا ترک کیا—اور ہر چیز کی ممکنہ استعداد پا لی ہے۔ اُس نے دریافت کیا ہے کہ وہ اب بھی اپنی تاریخ سے لطف اندازہو سکتا ہے، اب بھی اپنے اصلاف، اپنی موسیقی اور رقص اور ادب، اپنی خوراک، اپنے وطن اور لوگوں پر نازاں ہو سکتا ہے۔ اُس نے جان لیا ہے کہ اُس کے اپنے مقامی تمدن کے بہترین کو تمام تمدنوں سے عظیم ترین میں شامل کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اُس نے دریافت کرلیا ہے کہ جو چیز اس کی پرانی زندگی سے سچائی اور راستبازی کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے اسے اپنی نئی زندگی میں لانا صرف مقُدسین کے ساتھ اپنی رفاقت کو بڑھانے اور آسمانی معاشرے میں سب کو متحد کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔

درحقیقت، ہم سب، اپنی انفرادی زمینی ثقافتوں کو عزیز رکھ سکتے ہیں اور پھر بھی ان سب سے قدیم ترین تمدن—اصل، حتمی، ابدی تمدن میں ہم سب شریک ہو سکتے ہیں جو یِسُوع مسِیح کی انجیل سے آتا ہے۔ ہم سب کیا ہی شاندار ورثہ کے شراکت دار ہیں۔ یِسُوع مسِیح کے نام پر، آمین۔

حوالہ جات

  1. موسیٰ ۱: ۳۹۔

  2. جے ای میک کلوچ، کلِیسیائی صدور کی تعلیمات: ڈیوڈ او مکئے میں (۲۰۱۱)، ۱۵۴۔

  3. دیکھئے تعلیماتِ کلِیِسیائی صدور: جارج البرٹ سمتھ (۲۰۱۱)، xxviii؛گورڈن بی ہنیکلی، ”ہمارے ایمان کی شاندار بُنیاد،“ لیحونا، نومبر ۲۰۰۲، ۷۸–۸۱۔