مجلسِ عامہ
اِنصاف کر، رحم دِلی کو عزِیز رکھ، اور اپنے خُدا کے حُضُور فروتنی سے چل
مجلسِ عامہ اکتوبر ۲۰۲۰


اِنصاف کر، رحم دِلی کو عزِیز رکھ، اور اپنے خُدا کے حُضُور فروتنی سے چل

اِنصاف کرنے سے مراد عزت سے پیش آنا ہے۔ ہم اُس کے حُضُور فروتنی سے چل کر خُدا کو وقار بخشتے ہیں۔ ہم رحم دِلی کو عزِیز رکھّتے ہوئے دُوسروں کو وقار بخشتے ہیں۔

یِسُوع مسِیح کے پیروکار، اور مُقدّسینِ آخِری ایّام کی حیثیت سے، ہم کوشش کرتے ہیں—اور ہماری حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ ہم کوشش کریں—تاکہ ہم بہتر کریں اور بہتر بنیں۔۱ شاید آپ، میری مانند متجسس ہوں کہ، ”آیا میرے اعمال کافی ہیں؟“ ”مجھے مزید کیا کرنا چاہیے؟“ یا ”میں، ایک غیر کامل شخص کی حیثیت سے، ’کبھی نہ ختم ہونے والی خوشی کی حالت میں خُدا کے ساتھ قیام کرنے‘ کا اہل کیسے ہو سکتا ہوں؟“۲

عہدِ عتیق کے نبی مِیکاہ نے یہ سوال اِس طرح سے پوچھا: ”مَیں کیا لے کر خُداوند کے حُضُور آؤں، اور خُدا تعالےٰ کو کیونکر سِجدہ کرُوں ؟“۳ مِیکاہ نے یہ کہتے ہوئے، طنزیہ انداز میں حیرت کا اِظہار کیا کہ کیا زیادہ مقدار کی پیش کش بھی گُناہ کی تلافی کے لیے کافی ہوسکتی ہے: ”کیا خُداوند ہزاروں مینڈھوں سے یا … تیل کی دس [ہزار] نہروں سے خُوش ہو گا؟ کیا میں اپنے پہلَوٹھے کو … اپنی جان کی خطا کے بدلہ میں دے دُوں؟“۴

اِس کا جواب ہے، نہیں۔ نیکیاں کافی نہیں ہیں۔ نجات کمائی نہیں جاتی۔۵ یہاں تک کہ ایسی بے کراں قربانیوں سے بھی سب سے چھوٹے گُناہ کا معاوضہ نہیں چکایا جا سکتا جن سے مِیکاہ آشنا تھا۔ اگر ہم صرف اپنی صلاحیتوں یا وسائل پر انحصار کریں تو، خُدا کی حُضُوری میں واپس لوٹنے کا امکان مایوس کن ہے۔۶

آسمانی باپ اور یِسُوع مسِیح کی طرف سے حاصل ہونے والی نعمتوں کے بغیر، ہم کبھی بھی خود سے خاصے ضروری کام نہیں کرسکتے ہیں اور نہ ہی مطلوبہ خصوصیات کے حامل ہوسکتے ہیں۔ پھر بھی، اچھی خبر یہ ہے کہ، یِسُوع مسِیح کی وجہ سے اور اُس کے ذریعہ ہم کامل بن سکتے ہیں۔۷ تمام لوگوں کو خُدا کے فضل کی بدولت، یِسُوع مسِیح کی موت اور قیامت کے وسیلہ سے جسمانی موت سے نجات ملے گی۔۸ اور اگر ہم اپنے دِلوں کو خُدا کی طرف موڑتے ہیں تو، رُوحانی موت سے نجات ”اِنجیل کے قوانین اور رسوم کی فرمان برداری سے … [یِسُوع] مسِیح کے کفارہ کے وسیلے“ سب کے لیے دستیاب ہے۔۹ خُدا کے سامنے پاک اور صاف کھڑے ہونے کے لیے ہم گُناہ سے مخلصی پاسکتے ہیں۔ جیسا کہ مِیکاہ نے بیان کیا، ”اَے اِنسان، [خُدا] نے تُجھ پر نیکی ظاہر کر دی ہے؛ خُداوند تُجھ سے اِس کے سِوا کیا چاہتا ہے کہ تُو اِنصاف کرے اور رحم دِلی کو عزِیز رکھّے اور اپنے خُدا کے حُضُور فروتنی سے چلے؟“۱۰

ہمارے دِلوں کو خدا کی طرف موڑنے اور نجات کے لیے اہل ہونے کے واسطے مِیکاہ کی ہدایت میں تین باہم جڑے ہوئے عناصر شامل ہیں۔ اِنصاف کرنے سے مراد یہ ہے کہ خُدا اور دُوسرے لوگوں کے ساتھ عزت سے پیش آیا جائے۔ ہم اُس کے حُضُور فروتنی سے چل کر خُدا کو وقار بخشتے ہیں۔ ہم رحم دِلی کو عزِیز رکھّتے ہوئے دُوسروں کو وقار بخشتے ہیں۔ اِنصاف کرنا لہٰذا پہلے اور دُوسرے عظیم احکام کا عملی اطلاق ہے، کہ ”خُداوند اپنے خُدا سے اپنے سارے دِل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبّت رکھ … [اور کہ] اپنے پڑوسِی سے اپنے برابر محبّت رکھ۔“۱۱

اِنصاف کرنا اور خُدا کے حُضُور فروتنی سے چلنا دانستہ طور پر اپنا ہاتھ بد کرداری سے دستبردار کرنا، اُس کے آئین پر چلنا اور مصدقہ طور پر وفادار رہنا ہے۔۱۲ صادق گُناہ سے منہ پھیرتا اور خُدا کی طرف دھیان لگاتا ہے، اُس کے ساتھ عہد باندھتا ہے، اور اُن عہود پر قائم رہتا ہے۔ صادق خُدا کے احکام کی فرمان برداری کرنے کا انتخاب کرتا ہے، ناکامی کی صورت میں توبہ کرتا اور، اپنی کوشش جاری رکھتا ہے۔

جب جی اُٹھا مسِیح نیفیوں کے پاس گیا تو، اُس نے واضح کیا کہ موسیٰ کی شرِیعت کی جگہ ایک اعلیٰ شرِیعت نے لے لی ہے۔ اُس نے اُنھیں ہدایت دی کہ وہ مزید ”قربانیاں اور … سوختنی چڑھاوے … نہ چڑھائیں“ بلکہ ”شکستہ دِل اور پشیمان رُوح“ کی قربانی پیش کریں۔ اُس نے یہ وعدہ بھی کیا، ”اور جو کوئی میرے پاس پشیمان رُوح اور شِکستہ دِل کے ساتھ آتا ہے، میں اُس کو آگ اور رُوحُ القُدس کے ساتھ بپتسمہ دُوں گا۔“۱۳ جب ہم بپتسمہ لینے کے بعد رُوحُ القُدس کی نعمت کو حاصل کرتے اور اِس کا اِستعمال کرتے ہیں، تو ہم رُوحُ الُقدس کی مستقل صحبت سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں اور وہ ہمیں سب کچھ بتائے گا کہ ہمیں کیا کرنا ہے،۱۴ بمشول اِس کے کہ خُدا کے حُضُور فروتنی سے کیسے چلنا ہے۔

گُناہ کے لیے یِسُوع مسِیح کی قربانی اور رُوحانی موت سے نجات اُن سب کے لیے دستیاب ہے جو اِس درجے کے شکستہ دِل اور پشیمان رُوح کے حامل ہیں۔۱۵ شکستہ دِل اور پشیمان رُوح ہمیں شادماں توبہ کرنے اور ہمارے آسمانی باپ اور یِسُوع مسِیح کی مانند مزید بننے کی کوشش کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ ایسا کرنے سے، ہم مُنجّی کی صفا و شفا، اور توانا کرنے کی قدرت پاتے ہیں۔ ہم نہ صرف اِنصاف کرتے اور خُدا کے حُضُور فروتنی سے چلتے ہیں؛ بلکہ ہم آسمانی باپ اور یِسُوع مسِیح کی طریق پر رحم دِلی کو عزِیز رکھنا سیکھتے ہیں۔

خُدا رحم دِلی سے خوش ہوتا ہے اور اِس کے استعمال سے ناراض نہیں ہوتا۔ یہوؔواہ کو کہے گئے مِیکاہ کے اِلفاظ کہ، ”تُجھ سا خُدا کون ہے جو بدکرداری مُعاف کرے، … ہم پر رحم فرمائے گا،“ اور ”سب گُناہ … سمندر کی تہ میں ڈال دے گا۔“۱۶ خُدا کی مانند رحم دِلی کو عزِیز رکھنا لازمی طور پر دُوسروں کے ساتھ اِنصاف سے پیش آنے اور اُن کے ساتھ بد سلوکی نہ کرنے سے جڑا ہوا ہے۔

دُوسروں کے ساتھ بد سلوکی نہ کرنے کی اہمیت ایک یہودی عالم، ہلیل دی ایلڈر، کے بارے میں ایک کہانی میں اجاگر کی گئی ہے، جو پہلی صدی قبل مسِیح سے تعلق رکھتا تھا۔ ہلیل کا ایک طالب علم توریت کی پیچیدگی—موسیٰ کی پانچ کتابوں سمیت اُن کے ۶۱۳ احکامات اور متعلقہ ربیّوں کی تحریروں کے باعث سخت برہم ہوا۔ طالب علم نے ہلیل کو چیلنج کیا کہ وہ ایک پاؤں پر کھڑے ہو کر توریت کی وضاحت ختم کریں۔ شاید ہلیل بہت زیادہ توازن کا حامل نہ رہا ہو لیکن اُس نے چیلنج کو قبول کرلیا۔ اُس نے احبار کا حوالہ دیتے ہوئے، کہا، ”تُو اِنتِقام نہ لینا، اور نہ اپنی قُوم کی نسل سے کِینہ رکھنا، بلکہ اپنے ہمسایہ سے اپنی مانِند محبّت کرنا۔“۱۷ ہلیل نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ: ”جس چیز سے تمھیں نفرت ہے وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ مت کرو۔ کُل توریت یہی ہے؛ باقی سب تفسیر ہے۔ جاؤ اور مُطالعہ کرو۔“۱۸

ہمیشہ دُوسروں کو وقار بخشنا رحم دِلی کو عزِیز رکھّنے کا حصّہ ہے۔ دہائیاں قبل اُس گفتگو پر غور کریں جو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے، میری لینڈ کے شہر، بالٹیمور، میں جان ہاپکنز ہسپتال کے ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ میں مَیں نے سُنی۔ ایک مریض، مسٹر جیکسن، خوش اخلاق، زندہ دِل شخص تھا جس سے ہسپتال کا عملہ باخوبی واقف تھا۔ اِس سے قبل وہ شراب سے متعلقہ بیماریوں کے علاج کے لیے متعدد بار ہسپتال میں داخل ہوا تھا۔ اِس بار، مسٹر جیکسن ہسپتال میں ایسی علامات کے ساتھ لوٹے جو لبلبے کی الکحل میں مبتلا سوزش کی علامت ہوسکتی تھی۔

اپنی شفٹ کے اختتام پر، ڈاکٹر کوہن، جو کہ ایک سخت محنتی اور قابل طبیب تھا، اُس نے مسٹر جیکسن کا جائزہ لیا اور فیصلہ کیا کہ اُسے ہسپتال میں داخل کرنا ضروری ہے۔ ڈاکٹر کوہن نے ڈاکٹر جونز کو، جو اگلی شفٹ کی ڈاکٹر تھی، مسٹر جیکسن کو داخل اور اُن کے علاج معالجے کی نگرانی کرنے کے لیے مقرر کیا۔

ڈاکٹر جونز نے ایک معتبر میڈیکل سکول سے تعلیم حاصل کی تھی اور ابھی وہ اپنی پوسٹ گریجویٹ تعلیم شروع کررہی تھی۔ مستقل نیند کی کمی سے وابستہ سخت تربیت، کی وجہ سے ڈاکٹر جونز نے ممکنہ طور پر منفی ردِعمل کا مظاہرہ کیا۔ رات کے پانچویں داخلے پر،اُس نے ڈاکٹر کوہن سے بلند آواز میں شکایت کی۔ اُس نے محسوس کیا کہ یہ غیر منصفانہ ہے کہ اُسے مسٹر جیکسن کی دیکھ بھال کرنے میں کئی گھنٹے گزارنا پڑیں گے، جبکہ وہ اپنی بگڑی حالت کا، بہر حال، خود ذمہ دار ہے۔

ڈاکٹر کوہن کا پُر زور ردِعمل تقریباً ایک سرگوشی تھی۔ اُس نے کہا، ”ڈاکٹر جونز، آپ لوگوں کی دیکھ بھال اور اُن کی شفایابی کا کام کرنے کے لیے ایک معالج بنی ہیں۔ آپ اُن کو جانچنے کے لیے معالج نہیں بنی۔ اگر آپ یہ فرق نہیں سمجھتی ہیں تو، آپ کو اِس ادارے میں تربیت لینے کا کوئی حق نہیں ہے۔“ اِس اصلاح کے بعد، جب تک وہ ہسپتال میں داخل رہے ڈاکٹر جونز نے مسٹر جیکسن کی تندہی سے دیکھ بھال کی۔

مسٹر جیکسن بعد ازاں انتقال فرما گئے۔ ڈاکٹر جونز اور ڈاکٹر کوہن دونوں نمایاں طبیب بن گئے ہیں۔ لیکن اُس کی تربیت کے ایک نازک لمحے میں، ڈاکٹر جونز کو اِنصاف کے ساتھ کام کرنے، رحم دِلی کو عزِیز رکھنے، اور جانچے بغیر مسٹر جیکسن کی دیکھ بھال کرنے کی یاد دلانے کی ضرورت تھی۔۱۹

برسوں سے، میں اُس یاد دہانی سے مستفید ہوا ہوں۔ رحم دِلی کو عزِیز رکھنے سے مراد یہ ہے کہ ہم صرف اُس رحمت کو عزِیز نہیں رکھتے جو خُدا ہمیں بخشتا ہے؛ بلکہ ہمیں خُوشی ہے کہ خُدا دُوسروں کو بھی یکساں رحمت سے نوازتا ہے۔ اور ہم اُس کے نمونہ کی پیروی کرتے ہیں۔ ”خُدا کی نظر میں سب ایک ہیں،“۲۰ اور ہم سب کو مدد اور شفا یاب ہونے کے لیے رُوحانی علاج کی ضرورت ہے۔ خُداوند نے فرمایا ہے، ”کسی بشر کو دُوسرے سے بہتر مت جانو، یعنی کوئی آدمی یہ خیال مت کرے کہ وہ دُوسرے سے افضل ہے۔“۲۱

یِسُوع مسِیح نے مثال پیش کی کہ اِنصاف کرنے اور رحم دِلی کو عزِیز رکھنے کے کیا معنی ہیں۔ وہ فراخ دِلی سے گنہگاروں سے ملتا، اُن کے ساتھ عزت اور احترام سے پیش آتا۔ اُس نے خُدا کے احکام پر عمل پیرا ہونے کی خُوشی کا درس دیا اور جدوجہد کرنے والوں کی مذمت کرنے کے بجائے اُنھیں سر بلند کرنے کی کوشش کی۔ اُس نے اُن لوگوں کی مذمت کی جنہوں نے ایسے لوگوں کی خدمت کرنے کے باعث کہ جنہیں وہ نا اہل سمجھتے تھے مسِیح پر تنقید کی۔۲۲ اِس طرح کی نیکی کا ڈھونگ اُسے غصہ دلاتا تھا اور ابھی بھی ایسا ہی ہے۔۲۳

مسِیح کی مانند بننے کے لیے، ایک شخص کو اِنصاف کرنا، خُدا اور دُوسرے لوگوں دونوں کے ساتھ عزت سے پیش آنا چاہیے۔ صادق کے اِلفاظ اور عمل میں شائستگی ہوتی ہے اور اُسے پہچان ہے کہ نقطہ نظر یا اعتقاد میں اختلافات حقیقی شفقت اور دوستی میں رکاوٹ کا باعث نہیں بنتے۔ اِنصاف پسند افراد ”ایک دُوسرے کو ضرر پہنچانا نہیں چاہتے، بلکہ صلح کے ساتھ رہتے ہیں۔“۲۴

مسِیح کی مانند بننے کے لیے، ایک شخص رحم دِلی کو عزِیز رکھتا ہے۔ جو لوگ رحم دِلی کو عزیز رکھتے ہیں وہ دُوسروں کو جانچتے نہیں؛ وہ دُوسروں کے لیے ہمدردی کا اِظہار کرتے ہیں، خاص کر کم بخت لوگوں کے لیے؛ وہ رحیم، مہربان اور قابلِ احترام لوگ ہوتے ہیں۔ یہ افراد نسل، صنف، مذہبی وابستگی، جنسی رجحان، معاشرتی حیثیت، اور قبائلی، سماجی گروہ، یا قومی اختلافات جیسی خصوصیات سے قطع نظر، ہر ایک سے محبّت اور تفہیم کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ مِثلِ مسِیح محبّت اِن سب پہ سبقت لے جاتی ہے۔

مِثلِ مسِیح بننے کے لیے، ایک شخص خُدا کا انتخاب کرتا ہے،۲۵ اُس کے حُضُور فروتنی سے چلتا، اُسے مسرت بخشنے کی کوشش کرتا، اور اُس کے ساتھ باندھے گئے عہود پر قائم رہتا ہے۔ وہ افراد جو خُدا کے حُضُور فروتنی سے چلتے ہیں وہ یاد رکھتے ہیں کہ آسمانی باپ اور یِسُوع مسِیح نے اُن کے لیے کیا کیا ہے۔

آیا میرے اعمال کافی ہیں؟ مجھے مزید کیا کرنے کی ضرورت ہے؟ اِس زِندگی اور ابدیت میں ہماری شادمانی کا دارومدار اِن سوالوں کے باعث اٹھائے جانے والے اقدام پر ہوتا ہے۔ مُنجّی نہیں چاہتا ہے کہ ہم مانوسیت کے سبب نجات کو خاطر میں نہ لائیں۔ حتیٰ کہ ہمارے مُقدّس عہود باندھنے کے بعد بھی، امکان ہے کہ ہم ”زِندہ خُدا سے پھریں اور فضل سے گر جائیں گے۔“ تاہم ہم ”آزمایش میں پڑنے“ سے بچنے کے لیے ”خبردار رہیں اور ہمیشہ دُعا کریں۔“۲۶

لیکن ساتھ ہی ساتھ، ہمارا آسمانی باپ اور یِسُوع مسِیح یہ نہیں چاہتے کہ ہم یہ سوچتے ہوئے کہ آیا ہمارے اعمال نجات اور سرفرازی پانے کے لیے کافی ہیں، اپنے فانی سفر کے دوران، ہم مستقل غیر یقینی صورتحال سے مفلوج ہو جائیں۔ وہ یقیناً یہ نہیں چاہتے ہیں کہ ہم توبہ کی جانے والی غلطیوں کے باعث یہ سوچتے ہوئے اذیت کا سامنا کریں، کہ وہ زخم کبھی نہیں بھریں گے،۲۷ یا ضرورت سے زیادہ خوف زدہ ہوں کہ ہم دُوبارہ ٹھوکر کھائیں گے۔

ہم اپنی بڑھوتی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ہم جان سکتے ہیں ”کہ زِندگی کا سفر [جس پر ہم] گامزن ہیں، وہ خُدا کی مرضی کے مُوافق ہے“۲۸ جب ہم اِنصاف کرتے، رحم دِلی کو عزِیز رکھتے، اور اپنے خُدا کے حُضُور فروتنی سے چلتے ہیں۔ ہم آسمانی باپ اور یِسُوع مسِیح کی صفات کو اپنے کردار میں ضم کر لیتے ہیں، اور ہم ایک دُوسرے سے محبّت رکھتے ہیں۔

اِن کاموں کے باعث، آپ عہد کے راستے پر چلیں گے اور ”کبھی نہ ختم ہونے والی خُوشی کی حالت میں خُدا کے ساتھ قیام کرنے“ کے اہل ہوں گے۔۲۹ آپ کی جانوں میں خُدا کا جلال اور دائمی زِندگی کا نُور سرایت کر جائے گا۔۳۰ آپ ناقابلِ فہم خُوشی سے بھر جائیں گے۔۳۱ میں گواہی دیتا ہوں کہ خُدا زِندہ ہے اور یِسُوع المسِیح ہے، جو ہمارا نجات دہندہ اور مخلصی دینے والا ہے، اور محبّت اور خُوشی سے سب کو اپنی رحمت سے نوازتا ہے۔ کیا آپ کو یہ پسند نہیں؟ یِسُوع مسِیح کے نام پر آمین۔