۲۰۱۰–۲۰۱۹
خُداوند پر بھروسہ
مجلسِ عامہ اکتوبر ۲۰۱۹


خُداوند پر بھروسہ

ہمارے لیے یقینِ محکم یہی ہے کہ ہم خُداوند پر اور اپنے بچوں کے لیے اُس کی محبت پر بھروسہ رکھیں۔

میرے عزیز بھائیو اور بہنو، کچھ عرصہ پہلے مجھے موصول ہونے والا خط میرے خطاب کا عنوان متعارف کرواتا ہے۔ مصنفہ ایک ایسے شخص سے ہیکل میں نکاح کروانے پر غور و غوص کر رہی تھی جس کی ابدی رفیقہِ حیات پیوستہِ خاک ہو چکی تھی۔ اب اُسے زوجہ دوئم ہونا تھا۔ اُس نے یہ سوال پوچھا: کیا حیاتِ دوامی میں اُس کا اپنا گھر ہو گا یا اُسے اپنے خاوند اور اُس کی پہلی بیوی کے ساتھ رہنا پڑے گا؟ میں نے اُسے فقط خُداوند پر بھروسہ کرنے کو کہا۔

میں اپنی بات، اپنے ایک ایسا تجربہ بتا کر جاری رکھوں گا جو مجھے میرے ایک قابلِ قدر دوست نے بتایا۔ اپنی عزیز بیوی اور اپنے بچوں کی ماں کی موت کے بعد کسی باپ نے دوبارہ شادی کر لی۔ کچھ بالغ بچوں کے دوبارہ شادی پر شدید اعتراض کیا اور اپنے قریبی رشتے دار کی مشورت کے خواہاں ہوئے جو ایک قابلِ احترام کلیسیائی رہنماء تھا۔ اعتراضات کی وجوحات، جو عالمِ ارواح میں، اور آخری عدالت کے بعد جلال کی بادشاہتوں میں حالات و تعلقات پر مرکوز تھیں، سننے کے بعد اُس رہنماء نے کہا: ”آپ غلط چیز پر متفکر ہو رہے ہیں۔ آپ کو فکر کرنی چاہیے کہ کیا آپ اُن جگہوں پر پہنچ پائیں گے۔ اِس پر مُرتکز ہوں۔ اگر آپ وہاں پہنچ جائیں گے تو وہ سب کچھ آپ کے تصور سے بڑھ کر شاندار ہو گا۔“

یہ کیا ہی سکون آمیز تعلیم ہے! خُداوند پر بھروسہ رکھیں!

مجھے موصول ہونے والے خطوط سے میں جانتا ہوں کہ موت کے بعد اور قیامت سے قبل عالمِ ارواح کے بارے میں سوالات سے دوسرے لوگ بھی متفکر رہتے ہیں۔ کچھ یہ سمجھتے ہیں کہ عالمِ ارواح میں فانی زندگی کے دینوی حالات و مسائل کا تسلسل جاری رہے گا۔ ہم عالمِ ارواح میں حالات کے بارے میں حقیقتا کیا جانتے ہیں؟ میرے خیال میں بی وائی یو کے دیناتی پروفیسر نے اس عنوان پر اپنے آرٹیکل میں درست کہا: ”جب ہم خود سے سوال کرتے ہیں کہ ہم صحائفِ استنادی سے عالمِ ارواح کے بارے میں کیا جانتے ہیں تو اس کا جواب ہے کہ ’اتنا علم نہیں جتنا ہم سمجھتے ہیں۔‘“۱

بے شک، صحائف سے معلوم ہے کہ اپنے جسموں کی موت کے بعد ہم عالمِ ارواح میں بطور ارواح جینا جاری رکھتے ہیں۔ صحائف ہمیں تعلیم دیتے ہیں کہ یہ عالمِ ارواح، زندگی میں ”راستباز“ یا ”بھلے“ اور بدکاروں کے مابین منقسم ہے۔ وہ ہمیں یہ تعلیم بھی دیتے ہیں کہ کیسے کچھ ایماندار روحیں، انجیل کی تعلیم اُن کو دیتی ہیں جو ربدکار یا سرکش رہے ہیں (دیکھیں ۱ پطرس ۳: ۹، تعلیم اور عہود ۱۳۸: ۱۹-۲۰، ۲۹، ۳۲، ۳۷)۔ اہم ترین بات یہ کہ ، جدید مکاشفہ منکشف کرتا ہے کہ کارِ نجات عالمِ ارواح میں جاری رہتا ہے (دیکھیں عقائد اور عہود ۱۳۸، ۳۰-۳۴، ۵۸)، اور گو کہ ہماری حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ ہم فانیت میں اپنی توبہ میں تاخیر نہ کریں (ایلما ۱۳: ۲۷) ہمیں سکھایا گیا ہے کہ وہاں کسی حد تک توبہ ممکن ہے (دیکھیں عقائد اور عہود ۱۳۸: ۵۸)

عالمِ ارواح میں نجات کا کام ارواح کو اُس سے نجات دلانا ہے جس کو صحائف میں اکثر ”قید“ کہا جاتا ہے۔ عالمِ ارواح میں سب کسی نہ کسی صورت قید میں ہیں۔ عائد و عہود کی فصل ۱۳۸ میں مرقوم صدر جوزف ایف۔ سمتھ کا مکاشفہِ عظیم بتاتا ہے کہ قیامت کے منتظر (عقائد اور عہود ۱۳۸: ۱۶) راست مُردے ”اطمینان“ کی حالت میں تھے۔عقائد اور عہود ۱۳۸: ۲۲)، ”وہ اپنے اجسام سے اپنی ارواح کی لمبی جُدائی کو بطور قید دیکھتے تھے۔ (عقائد اور عہود ۱۳۸: ۵۰

بدکار ایک اضافی قید جھیلتے ہیں۔ پطرس رسول کہتا ہے کہ وہ بے توبہ گناہوں کی وجہ سے روحانی ”قید“ میں ہیں (۱ پطرس ۳ : ۱۹؛ مزید ملاخطہ کریں عقائد اور عہود ۱۳۸: ۴۲)۔ اِن ارواح کو بطور ”قیدی“ یا ”بندھی“ ارواح کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ (عقائد اور عہود ۱۳۸: ۳۱، ۴۲) یا ایسے کہ ”اُنہیں خارجی تیرگی میں پھینکا گیا “جہاں اپنی قیامت اور انصاف کے انتظار میں اُن کے لیے ”رونا اور ماتم کرنا اور دانتوں کا پیسنا ہے“(ایلما ۴۰: ۱۳-۱۴)

قیامتِ یسوع مسیح کی بدولت عالمِ ارواح میں موجود سب کی قیامت یقینی ہے(دیکھیں ۱ کرنتھیوں ۱۵: ۲۲) گو کہ مختلف گروہوں کے لیے ایسا مختلف اوقات میں رونما ہو گا۔ اُس مقررہ وقت تک، عالمِ ارواح کی سرگرمیں کے بارے میں ہمیں صحائف میں جو کچھ بتایا گیا ہے وہ صرف کارِ مخلصی سے متعلق ہے۔ اس کے علاوہ بہت کم منکشف کیا گیا ہے۔ غیر واقف، غیر منفعل اور سرکشوں میں انجیل کی منادی کی جاتی ہے تا کہ وہ اپنی قید سےرہائی پائیں اور وہ اُن برکات کی جانب آگے بڑھیں جو پیار کرنے والے آسمانی باپ نے اُن کے لیے رکھی ہیں۔

رجوع لانے والی راستباز روحوں کے لیے عالمِ ارواح کی قید یہ ہے کہ وہ زمین پر اپنی نیابتی رسومات کی ادائیگی کا انتظار کرتی ہیں—اور بعض اوقات اُنہیں اس کی تحریک دینے کی اجازت دی جاتی ہے تاکہ زمین پر اُن کا بپتسمہ ہو اور وہ روح القدس کی برکات سے لطف اندووز ہوں (دیکھیں عقائد اور عہود ۱۳۸: ۳۰–۳۷، ۵۷–۵۸۲ یہ زمینی نیابتی رسومات آدمیوں کو قوت بخشتی ہیں کہ کہانتی اختیار میں آگے بڑھیں اور راست بازوں کے لشکر کو بڑا کریں جو قید میں روحوں کو انجیل کی منادی کر سکتے ہیں۔

ان بنیادی حقائق کے علاوہ ہمارے ذخیرہِ صحائف میں موت کے بعد اور آخری عدالت سے پہلے کے عالمِ ارواح کے بارے میں بہت کم باتیں بتائیں گئی ہیں۔۳ سو ہم عالمِ ارواح کے بارے میں اور کیا جانتے ہیں؟ کلیسیا کے بہت سے ارکان کو بہت سی رویا اور دیگر الہام ملا ہے تاکہ اُنہیں بتایا جائے کہ عالمِ ارواح میں چیزوں پر کیسے عمل دارامد ہوتا ہے یا اُن کی تنظیم کیسے ہوتی ہے، لیکن یہ ذاتی روحانی تجربات ہیں، اور اِنہیں کلیسیا کی باضابطہ تعلیم کے طور پر سمجھنا اور سکھانا نہیں چاہیے۔ اور ظاہر ہے کہ ارکان کی جانب سے اور دیگر قریب المرگ تجربات کی اشاعت شدہ کُتب جیسے وسائل میں قیاس آرائیاں تو بہت ہوتی ہیں۔۴

ااِن سب کے بارے میں ایلڈر ڈی۔  ٹاڈ کرسٹافرسن اور نیل  ایل۔ اینڈرسن کے سابقہ جنرل کانفرنس کے دانا پیغامات کو یاد رکھنا ضروری ہے۔ ایلڈر کرسٹافرسن نے سکھایا ”یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ضروری نہیں کہ گزشتہ یا حالیہ کلیسیائی رہنماٗوں کا کہا ہر بیان کلیسیائی تعلیم پر مشتمل ہے۔ کلیسیا میں عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ کلیسیا کے کسی ایک رہنما کی جانب سے موقعِ واحد پر دیا ہوا بیان، گو کہ وہ ذی سوچ ہی کیوں نہ ہو، ذاتی نظریہ ہوتا ہے، جو با ضابطہ طور پپر کلیسیائے کُل کے لیے واجب العمل نہیں ہوتا۔“۵

اُس کے بعد کی کانفرنس میں ایلڈر اینڈرسن نے یہ اصول سکھایا: ”صدارتِ اول اور بارہ رسولوں کی جماعت کے تمام ۱۵ ارکان، کلیسیائی عقائد کی تعلیم دیتے ہیں۔ یہ کسی گمنام خطاب کے کسی پیراگراف میں پوشدہ نہیں ہوتی۔“۶ اعلامیہِ خاندان جس پر تمام ۱۵ نبیوں، رویا بینوں اور مکاشفہ بینوں کے دستخط ہیں اس اصول کی شاندر مثال ہے۔

اعلامیہِ خاندان کی سی با ظابطہ مثال کے علاوہ، کلیسیائی صدور کی انبیانہ تعلیمات، جن کی تصدیق دیگر نبیوں اور رسولوں نے کی ہو، اِس کی ایک اور مثال ہیں۔ اپنی خدمت گزاری کے آخری وقت کے قریب نبی جوزف سمتھ نے دو عقائد سکھائے جن کو اُس کے بعد آنے والوں نے بھی اکثر سکھایا۔ اُن میں سے ایک عقیدہ کنگ فالٹ والے خطاب سکھایا گیا کہ راست بازوں کے ارکانِ خاندان عالمِ ارواح میں اکٹھے ہوں گے۔۷ دوسرا عقیدہ اُس کی زندگی کے آخر سال میں ایک جنازے پر دیا یہ بیان ہے: ”راست بازوں کی ارواح کوعظیم اور جلالی تر کام میں سرفزاری بخشی جاتی ہے… عالمِ ارواح میں … وہ ہم سے دور نہیں ہیں اور وہ ہمارے خیالات جذبات اور احساسات سے واقف ہیں اور اُنہیں سمجھتے ہیں، اور اکثر اِن کے سبب تکلیف بھی اٹھاتے ہیں“۸

سو اُس سوال کا، جس کا میں نے پہلے ذکر کیا کہ روحیں کہاں رہتی ہیں، جواب کیا ہے؟ اگر یہ سوال آپ کو عجیب اور معمولی لگتا ہے تو اپنے بہت سے سوالوں پر غور کریں، یا اُن پر جن کا جواب آپ نے ماضی میں کسی اور کی سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر دینے کی کوشش کی ہے؟ عالمِ ارواح کے بارے میں سوالوں پر دو جواب تجویز کرتا ہوں۔۔ ۱ول یاد رکھیں کہ خُدا اپنے بچوں کو عزیز رکھتا ہے اور یقیناٌ ہم سب کے لیے بہترین کرے گا۔ دوئم بائیبل کی یہ مشہور تعلیم یاد رکھیں، جو میرے لیے کئی بے جواب سوالوں میں مددگار رہی ہے۔

”سارے دل سے خُداوند پر توکل کر اور اپنے فہم پر تکیہ نہ کر۔

اپنی سب راہوں میں اُس کو پہچان اور وہ تیری رہنمائی کرے گا۔“ (امثال ۴: --۶)

اسی طرح نیفی نے اپنے عظیم مزمور کا اختتام ان الفاظ سے کیا ”اے خُداوند میں نے تجھ میں بھروسہ کیا ہےاور ہمیشہ تجھ پر بھروسہ رکھوں گا۔ میں اانسان کے بازو پر بھروسہ نہ کروں گا۔

ہم ذاتی طور پر عالمِ ارواح کے بارے میں سوچ سکتے ہیں یا اِن اور دیگر بے جواب سوالوں پر خاندانوں اور بے تکلف مواقعوں پر گفتگو کر سکتے ہیں۔ لیکن ہم ایسی چیزوں کا باضابطہ عقیدے کے طور پر تعلیم یا استعمال نہ کریں جو کلیسیا کے با ضابطہ عقیدے کے معیار پر نہیں اُترتیں۔ ایسا کرنے سے کارِ خُداوندی میں ترقی نہیں آتی اور ممکن ہے کہ یہ لوگوں کی حوصلہ شکنی کرے کہ وہ ہم میں سے ہر ایک کے لیے خُداوند کے منصوبے کے مطابق اپنی تسلی اور تعلیم کے لیے ذاتی مکاشفے کے طالب ہوں۔ ذاتی تعلیمات یا قیاس آرائیوں پر متجاوز بھروسہ ہمیں سیکھنے کی اُن کوششوں سے دور کر سکتا ہے جو ہمارے فہم کو وسعت دیں گی اور موعودہ راہ میں آگے بڑھنے میں ہماری مدد کریں گی۔

کلیسیائے یسوع مسیح برائے مقدسین آخری ایّام میں خُداوند پر بھروسہ ایک شناسا اور صادق تعلیم ہے۔ جب ابتدائی مقدسین پر شدید ایذا رسانی ہوئی اور بظاہر ناقابلِ تسخیر رکاوٹیں آئیں تو جوزف سمتھ نے بھی یہی تعلیم دی۔۹ اب تک غیر منکشف اور کلیسیا میں باضابطہ طور پر نہ اپنائے معاملات سیکھنے کی سعی یا تسلی پانے کی کوشش میں جب ہمیں رکاوٹیں درپیش آتی ہیں تو یہی اصول ہمارے استعمال کے لیے بہترین ہے۔

فانیت میں واقعات اور خطاوں کے باعث، آنے والی زندگی میں سربمہری یا مطلوب ترتیبِ نو کے بارے میں بے جواب سوالوں پر بھی یہی اصول لاگو ہوتا ہے۔ اتنا کچھ ہے جو ہم نہیں جانتے کہ ہمارا یقینِ محکم صرف خُداوند اور اپنے بچوں کے لیے اُس کی محبت پر یقین ہے۔

اختتام میں یہ کہ ہم جانتے ہیں کہ باپ اور بیٹے کا کارِ مخلصی عالمِ ارواح میں جاری رہتا ہے۔ ہمارے نجات دہندہ نے قیدیوں میں رہائی کا اعلان کرنے کا کام شروع کیا ( دیکھیں ۱ پطرس ۳: ۱۸–۱۹؛ ۴:۶؛ عقائد اور عہود ۱۳۸: ۶–۱۱، ۱۸–۲۱، ۲۸–۳۷،)، اور جب پاکیزگی کی ضرورت رکھنے والوں میں اہل اور قابل پیام بر، بشمول توبہ کے انجیل کی منادی کرنا جاری رکھتے ہیں تو یہ کام جاری رہتا ہے (دیکھیں عقائد اور عہود ۱۳۸: ۵۷)۔ اس سب کا مقصد کلیسیا کی باضابطہ تعلیم میں بتایا گیا ہے جو جدید مکاشفہ میں دی گئی ہے۔

”وہ مُردے جو توبہ کرتے ہیں خُدا کے گھر کی رسوم کی فرمابنرداری کرتے ہوئے مخلصی پائیں گے،

”اور اپنی خطاوں کا ازالہ کرنے اور دُھل کر صاف ہونے کے بعد وہ اپنے کاموں کے مطابق اجر پائیں گے کیونکہ وہ نجات کے وارث ہیں“(عقائد اور عہود ۱۳۸: ۵۸–۵۹

ہم میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ بحال شدہ انجیل سکھائیں، احکام پر عمل کریں، ایک دوسرے سے محبت رکھیں اور مدد کریں اور مقدس ہیکلوں میں کارِ نجات انجام دیں۔

میں یہاں اپنی کہی باتوں کی سچائی اور اس کانفرنس میں سکھائی سچائیوں کی گواہی دیتا ہوں۔ یہ سب یِسُوع مِسیح کے کفارے کی قدرت کی بدولت ممکن ہُوا ہے۔ جیسا کہ ہم جدید مکاشفے سے جانتے ہیں ”وہ باپ کو جلال دیتا ہے اور اپنے ہاتھ کیا کاریگری کو نجات دیتا ہے“ (عقائد اور عہود ۷۶: ۴۳؛ تاکید اضافی) یسوع مسیح کے نام سے آمین۔

حوالہ جات

  1. ”دوسری جانب کیا ہے؟ برینٹ ایل ٹاپ کے ساتھ عالمِ ارواح کے بارے میں گفتگو Religious Educator والیم ۱۴، نمبر ۲ (۲۰۱۳)، ۴۸

  2. دیکھیں نبی جوزف سمتھ کی تعلیمات، منتخبات جوزف فیلڈنگ سمتھ (۱۹۷۶)، ۳۰۹–۱۰؛ جوزف سمتھ، ”Journal, December 1842–June 1844; Book 2،“ صفحہ  ۲۴۶ جوزف سمتھ کے بارے میں مضامین، josephsmithpapers.org

  3. عالمِ ارواح کے بارے میں جوزف سمتھ کو دیا مکاشفہ جس کا اکثر حوالہ دیا جاتا ہے، یوں بیان ہے، وہی معاشرت جو ہمارے درمیان کہان ہے وہاں پر بھی ہو گی“ (عقائد اور عہود ۱۳۰: ۲ ممکن ہے کہ عالمِ ارواح کی بجائے یہاں جلال کی بادشاہتوں کا ذکر ہو رہا ہو کیونکہ آگے جا کر یہ کہا گیا ہے کہ ”ہمارے درمیان ابدی جلال کے ساتھ وہاں موجود ہوگی، جس جلال کا لطف ہم اب نہیں اٹھاتے ہیں“(آیت ۲

  4. مثال کے طور پر جارج  جی۔ رِچی Return from Tomorrow (1978) اور ریمنڈ مُوڈی، Life after Life (۱۹۷۵)۔

  5. ڈی۔ ٹاڈ کرسٹافرسن ”مسیح کی تعلیم،“ لیحونا، مئی ۲۰۱۲، ۸۸؛ مزید دیکھیں جوزف ایف۔ سمتھج Gospel Doctrine پانچواں ایڈیشن (۱۹۳۹) ۴۲۔ مثال کے طور پر دیکھیں عقائد اور عہود ۷۴: ۵ میں پولوس رسول کی ذاتی تعلیم کی تفصیل۔

  6. نیل ایل۔ اینڈرسن ”Trial of Your Faithلیحونا نومبر ۲۰۱۲، ۴۱۔

  7. دیکھیں کلیسیائی صدور کی تعلیمات: جوزف سمتھ (۲۰۰۷)، ۱۷۵۔

  8. اکلیسیا کی تواریخ ۶: ۲۵ جو تعلیماتِ نبی جوزف سمتھ،۳۲۶؛ اکثر ہنری بی۔ آئرنگ کا حوالہ دیا جاتا ہے،To Draw Closer to God(۱۹۹۷)، ۱۲۲ مزید ملاحظہ کریں کلیسیا کے صدور کی تعلیمات: بریگہم ینگ (۱۹۹۷)، باب ۳۸ ”عالمِ ارواح“

  9. دیکھیں تعلیمات: جوزف سمتھ ۲۳۱–۳۳۔