دھوپ ہو یا چھائوں، خُداوند میرے ساتھ رہ
میں گواہی دیتی ہوں کہ ”دھوپ ہو یا چھائوں“خُداوند ہمارے ساتھ سکونت کرے گا، کہ ہماری ”تکلیف مِسیح کی خُوشی میں مغلوب [ہو سکتی]ہے۔“
ہمارے پسندیدہ گیتوں میں سے ایک اظہارِ التجا کرتا ہے ”دھوپ ہو یا چھائوں، خُداوند میرے ساتھ رہ“۱ ایک بار میں طیارے میں تھی جب یہ بڑے طوفان کے قریب پہنچا۔ کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے، میں اپنے نیچے گھنے بادلوں کی ایک دبیز تہیہ کو دیکھ سکتی تھی۔ ڈوبتے سورج کی کرنیں بادلوں کی اوٹ سے جھانک رہی تھیں، جو اُن کی چمک کو دوبالا کر رہے تھے۔ جلد ہی، طیارہ گھنے بادلوں سے نیچے اُتر آیا، اور ہم اچانک گہری تارریکی میں گھر گئے جس نے ہمیں مکمل طور پر اُس روشنی سے نابیناکر دیا جس کے چندلمحے پہلے ہم شاہد تھے۔۲
کالے بادل ہماری زندگیوں میں بھی بن سکتے ہیں جو ہمیں خُدا کے نور سے نابینا کر سکتے ہیں حتی کہ ہمیں سوال کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں آیا وہ نور ہمارے لئے موجود ہے۔ اِن بادلوں میں سے کچھ ذہنی دبائو، اضطراب، اور ذہنی و جذباتی نوعیت کی دیگر تکالیف ہیں۔ ہم خُود کو، دوُسروں کو اور حتی کہ خُدا کو کس طرح دیکھتے ہیں وہ اِس کو بگاڑ سکتے ہیں۔ یہ ہر عمر کے مرد و زن کو دُنیا کے تمام گوشوں میں متاثر کرتے ہیں۔
ایسے ہی بے حس کر دینے والا شک کا بادل بھی مضر ہےجو دُوسروں کو متاثر کر سکتا ہے جنہیں اِن چنوتیوں کا تجربہ نہیں ہوا ہے۔ جسم کے کسی بھی اعضا کی مانند، دماغ بھی بیماری، صدمےاور کیمیائی عدمِ توازن کا نشانہ ہے۔ جب ہمارے اذہان تکلیف میں ہوں ، اور جیسے ہم اپنی جسمانی بیماریوں کےلئے کرتے ہیں، ہم خُدا سے، وہ جو ہمارے ارد گرد ہیں، اور طبی اور دماغی پیشہ وروں سے مدد مانگنا مناسب سکتے ہیں۔
” تمام بنی نوع انسان—مرد اور عورت—خُدا کی شبیہہ پر بنائے گئے ہیں۔ ہر کوئی آسمانی والدین کی پیاری بیٹی یا بیٹا ہے اور … ہر ایک کی الہٰی فطرت اور منزل ہے۔“۳ ہمارے آسمانی والدین اور ہمارے منجی کی مانند، ہم جسمانی بدن رکھتے ہیں۴ اور جذبات کا تجربہ کرتے ہیں۔۵
میری پیاری بہنوں، کبھی کبھار اُداس یا فکر مند محسوس کرنا بالکل عام بات ہے۔ اُداسی،اور اضطراب فطری انسانی جذبات ہیں۔۶ تاہم، اگر ہم پہم اُداس رہتی ہیں اور اگر ہمارے رنج ہمیں ہمارے آسمانی باپ اور اُس کے بیٹے کی محبت اور رُوحُ الُقدس کے اثرکو محسوس کرنے کی اہلیت میں رکاوٹ بنیں، تب پھر ہم ذہنی دبائو، اضطراب، یا کسی اور جذباتی عارضہ میں مبتلا ہیں۔
میری بیٹی نے ایک مرتبہ لکھا: ”ایک وقت تھا … [جب] میں ہمہ وقت اُداس رہتی تھی۔ میں ہمیشہ سوچتی تھی اُداسی ایسی بات ہے جس پر شرمسار ہونا چاہیے، اور کہ یہ کمزوری کا نشان تھا۔ پس میں نے اپنی اُداسی کو خُود تک ہی محدود رکھا۔… میں نے کُلی طور پر بے وقعت محسوس کیا۔“۷
ایک سہیلی نے اِسے یوں بیان کیا:”میرے اوائل بچپن ہی سے، میں نے نااُمیدی، تاریکی، تنہائی، اور خُوف اور یہ احساس کہ میں شکستہ اور ناقص ہوں جیسے احساسات سے پہم جنگ کا سامنا کیا ہے۔ میں نے اپنے درد کو چھپانے اور یہ تاثر دینے کی ہر ممکن کوشش کی کہ میں فقط خوشحال و مضبوط ہونے کے سوا کچھ بھی نہیں ہوں۔“۸
میری اصحابِ عزیزمن، ایسا ہم میں سے کسی کے بھی ساتھ ہو سکتا ہے—خصوصاً جب، خوشی کے منصوبہ میں مومنین کی حیثیت سے، ہم یہ سوچ رکھتے ہوئے خُود پر بے جا بوجھ ڈالتی ہیں کہ ہمیں ابھی کامل ہونے کی ضرورت ہے۔ ایسے خیالات مغلوب کرنے والے ہوسکتے ہیں۔ حصولِ کاملیت ایک عمل ہے جو ہمارے پورے فانی جیون میں اور اِس سے پرے— اور صرف یِسُوع مِسیح کے فضل سے رونما ہو گا۔۹
اِس کے برعکس،جب ہم اپنی جذباتی مسائل کے بارے کھل کر بات کرتی ہیں، تسلیم کرتے ہوئے کہ ہم کامل نہیں ہیں ، ہم دوسروں کو اُن کی مصیبتیں بتانے کی اجازت دیتی ہیں۔ ہم باہم فہم پاتی ہیں کہ اُمید موجود ہے اور ہمیں تنہا نہیں سہنا ہے۔۱۰
یِسُوع مِسیح کے شاگردوں کی حیثیت سے، ہم نے خُدا کے ساتھ عہد باندھا ہے کہ ہم ”ایک دوسرے کا بوجھ اُٹھانا چاہتے ہیں “اور ”غمزدوں کے غم میں شریک ہونا چاہتے ہیں۔“۱۱ اِس میں جذباتی عارضوں کے متعلق آگاہ ہونا، ایسے وسائل ڈھونڈنا جو اِن تکالیف کا مداوا کرنے میں مدد دے سکیں، اور بلآخر خُود اور دُوسروں کو مِسیح کے پاس لانا شامل ہے، جو ماہر معالج ہے۔۱۲ اگرچہ ہم نہیں بھی جانتیں کہ دوسروں پر کیا بیت رہی ہےاُس سے کیسے واسطہ رکھنا ہے، یہ توثیق کرنا کہ اُن کے کرب حقیقی ہیں فہم اور شفا پانے کے لئے پہلا اہم قدم ہو سکتا ہے۔۱۳
کچھ معاملات میں، ذہنی دبائو یا اضطراب کے سبب کی نشاندہی کی جا سکتی ہے، جبکہ دیگر اوقات میں اِس کی تشخیص کرنا زیادہ مشکل ہو سکتا ہے۔۱۴۔ ہمارے دماغ۱۵ تنائو یا تھکن۱۶ کا شکار ہو سکتے ہیں، جس کو خوراک، نیند، اور ورزش میں اصلاح کرکے بہتر کیا جا سکتا ہے۔ اکثر، تربیت یافتہ پیشہ ور افراد کی زیر ہدایت علاج یا ادویات کی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
علاج نہ کیے گئے ذہنی اور جذباتی عوارض افزوں تنہائی، غلط فہمیوں ، ٹوٹے رشتوں، خُود ایذا رسانی، اور حتی کہ خُود کُشی کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ مجھے اِسے ذاتی طور پر جانتی ہوں، جیسے کہ میرے اپنے والد کئی سال پہلے خُود کُشی سے وفات پائے تھے۔ اُن کی وفات میرے اور میرے خاندان کے لئے چونکا اور دِل دہلا دینے والی تھی۔ اپنے غم پر غالب آنے میں مجھے برسوں لگے ہیں، اور میں نے یہ حال ہی میں سیکھا ہے کہ خُود کُشی کے بارے گفتگو کرنا در اصل اِسے بڑھاوا دینے کی بجائےاِسے روکنے میں مدد کرتا ہے۔۱۷ اب میں نے اپنے بچوں کے ساتھ اپنے والد کی موت پر کھل کر گفتگو کی ہے اور اُس شفا کی شاہد ہوئی ہوں جو منجی پردے کے دونوں اطراف دے سکتا ہے۔۱۸
افسوس کی بات ہے کہ بہت سے جو ذہنی دبائو کا شکار ہیں خُود کو اپنے ساتھی مقدسین سے دُور رکھتے ہیں کیونکہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ کسی تخیلاتی سانچے میں پورے نہیں اُترتے ہیں۔ ہم اُن کی جاننے میں مدد کر سکتے ہیں کہ اُن کا واقعی ہم سے تعلق ہے۔ یہ سمجھنا اہم ہے کہ ذہنی دبائو کمزری کا نتیجہ نہیں ہے، نہ ہی یہ عموماً گناہ کا نتیجہ ہے۔۱۹ یہ ”رازداری میں پھلتا پھولتا اور ہمدری میں سکڑتا ہے۔“۲۰ اکٹھے ، ہم تنہائی اور بدنامی کے بادلوں کو ہٹا سکتے ہیں تاکہ شرمساری کا بوجھ اُترے اور اعجازِ شفایابی رونما ہوسکے۔
اپنی فانی خدمت کے دوران، یِسُوع مِسیح نے بیماروں اور روگیوں کو شفا دی، مگر اُس کی شفا پانے کے لئے ہر شخص کو اُس پر ایمان کی مشق اور عمل کرنا تھا۔ کچھ نے طویل پیدل سفر کیا، دوسروں نے اُس کی پوشاک کو چُھونے کے لئے ہاتھ بڑھایا، اور دیگر کو شفا یاب ہونے کی خاطر اُس کے پاس لے جایا گیا۔۲۱ جب بات شفا کی ہو، کیا ہم سب کو اُس کی اشد ضرورت نہیں ہے؟ ”کیا ہم سب محتاج نہیں ہیں؟“۲۲
آئیں منجی کی راہ کی پیروی کریں اور اپنی شفقت کو بڑھائیں، رائے زنی کرنے کے اپنے میلان کو کم کریں، اور دوسروں کی روحانیت کو پرکھنے والے بننا بند کریں۔ محبت سے شنوا ہونا اُن بہترین تحفوں میں سے ایک ہے جو ہم پیش کرسکتے ہیں، ہم اُن گہرے بادلوں کو اُٹھانے یا ہٹانے میں مدد کر سکتے ہیں جنہوں نے ہمارے پیاروں اور دوستوں۲۳ کا دم گھونٹ رکھا ہےتاکہ ، ہماری محبت کے ذریعے، وہ ایک بار پھر سے رُوحُ القُدس کو محسوس کرسکیں اور اُس نور کا ادراک کرسکیں جو یِسُوع مِسیح سے پھوٹتا ہے۔
اگر آپ مسلسل ”تاریکی کی دھند،“۲۴میں گھرے ہیں آسمانی باپ کی طرف رجوع کریں۔ آپ کا جیسا بھی تجربہ رہا ہے اِس ابدی سچائی کو نہیں بدل سکتا کہ آپ اُس کے بچے ہیں اور کہ وہ آپ سے پیار کرتا ہے۔۲۵ یاد رکھیں مِسیح آپ کا منجی اور مخلصی دینے والا ہے ، اور خُدا آپ کا باپ ہے۔ وہ سمجھتے ہیں۔ اُنہیں اپنے قریب ، سُنتے اور معاونت کی پیشکش کرتے ہوئے تصور کریں۔۲۶ ”[وہ] تمھیں تمھاری مصیبتوں میں تسلی دیں گے۔“۲۷ آپ جو کر سکتے ہیں کریں، اور خُداوند کے کفارہ کے فضل پر بھروسہ رکھیں۔
آپ کی مصیبتیں آپ کے کردار کی عکاسی نہیں کرتیں بلکہ وہ آپ کو کندن کر سکتی ہیں۲۸ ”جسم میں کانٹے،“کی بدولت آپ دوسروں کے لئے اور زیادہ شفقت محسوس کرنے کی اہلیت پا سکتے ہیں۔۲۹ جیسے رُوحُ القُدس سے راہ نمائی پائیں، ”کمزوروں کی دست گیری کرنے، اور اُن ہاتھوں کو اُٹھا نےجو نیچے لٹکے ہوئےہیں، اور ناتواں گھٹنوں کو توانا کرنے۔”کے لئے اپنی کہانی بتائیں“۳۰
اُن کے لئےجو موجودہ طور پر مصیبت میں ہیں یا جواُن کی معاونت کر رہے ہیں جو مصیبت میں ہیں، آئیں خُدا کے احکام ماننے کے خواہاں ہوں تاکہ ہم ہمیشہ اُس کا رُوح اپنے ساتھ رکھ سکیں۔۳۱ آئیں”چھوٹے اور سادہ کام “۳۲کریں جو ہمھیں رُوحانی مضبوطی دیں گے۔ جیسے صدر رسل ایم نیلسن نے فرمایا ہے،”زیادہ پاکیزگی،قطعی فرماں برداری، کھوج لگانے کی سچی لگن، مورمن کی کتاب میں سے مِسیح کے کلام پر ضیافت مناننے اور باقاعدگی سے ہیکل کے لیے وقت وقف کرنے اور خاندانی تاریخ کا فرض نبھانےکے مجموعہ جیسا کچھ بھی نہیں جو آسمانوں کو یوں کھولتا ہے۔“۳۳
آئیں ہم سب یاد رکھیں کہ ہمارا منجی یسُوع مسِیح ”[ہماری] کمزوریاں اپنے پر [لے چُکا] ہے، کہ اُس کا دِل رحم سے بھر جائے، ، تاکہ وہ جسم کے اعتبار سے جانے …[ہماری ] کمزوریوں میں کیسے [ہماری ]مدد کرنی ہے۔“۳۴ وہ ”شکستہ دِلوں کو تسلی دینے، …سب غمگینوں کو دِلاسا دینے؛ …راکھ کے بدلے سہرا ، اور ماتم کی جگہ خُوشی کا روغن ، اُداسی کے بدلے ستائش کی خِلعت بخشنے“آیا۔۳۵
میں آپ کو گواہی دیتی ہوں کہ ”دھوپ ہو یا چھائوں“خُداوند ہمارے ساتھ سکونت کرے گا، ہماری ”تکلیف مِسیح کی خُوشی سے مغلوب [ ہوسکتی]ہے،“ ۳۶اور ”ہم سب کچھ کرنے کے بعد بھی فضل کے وسیلے سے ہی نجات پا سکتے ہیں۔“۳۷ میں گواہی دیتی ہوں کہ یِسُوع مِسیح زمین پر واپس لوٹے گا ”اپنے بازوں میں شفا لیے“۳۸ آخرکار ، ”وہ اُنکی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دے گا؛ اور نہ …ماتم رہے گا“۳۹ کیونکہ وہ سب جو ”مِسیح کے پاس آئیں گے، اور اُس میں کامل ہوں گے،“۴۰”سورج کبھی نہ ڈھلے گا … کیونکہ خُداوند [ہمارا] ابدی نور ہو گا، اور [ہمارے] ماتم کے دِن ختم ہو جائیں گے۔“۴۱ یِسُوع مِسیح کے نام پر، آمین۔