۲۰۱۰–۲۰۱۹
اپنی صلیب اٹھانا
مجلسِ عامہ اکتوبر ۲۰۱۹


اپنی صلیب اٹھانا

اپنی صلیب اٹھانا اور نجات دہندہ کی پیروی کرنے کا مطلب ہے کہ خُداوند کی راہ پر چلنا اور دنیوی عادات میں نہ پڑنا ہے۔

عزیز بھائیو اور بہنو اِن دو دنوں میں ہمیں اپنے رہنماوں سے بڑی شاندار تعلیمات ملی ہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اگر ہم اِن بہ مطابقتِ وقت اور الہامی تعلیمات پر عمل کے لیے کوشاں رہیں گے تو خُداوند اپنے فضل سے ہماری صلیب اٹھانے اور ہمارے بوجھ ہلکے کرنے میں ہم سب کی مدد کرے گا۔۱

جب وہ قیصریہ فلپی کے قرب و جوار میں تھے تو نجات دہندہ نے اپنے شاگردوں کو بتایا کہ وہ یروشلم میں بزرگوں، اعلیٰ کاہنوں اور فریسیوں کے ہاتھوں کیسی تکلیف اٹھائے گا۔ اُس نے خاص طور پر اپنی موت اور جلالی قیامت کے بارے میں تعلیم دی۔۲ا اُس وقت اُس کے شاگرد زمین پر اُس کے الہی مشن کو مکمل طور پر سمجھنتے نہ تھے۔ جب پطرس نے از خود سُنا کہ نجات دہندہ نے کیا کہا ہے تو تو اُسے ایک طرف لے جا کر یہ کہتے ہوئے ملامت کی ”خُداوند یہ تیرے پر نہیں آنے کا۔“۳

اپنے شاگردوں کو یہ سمجھانے کے لیے کہ اُس کے کام سے لگاوٗ میں اطاعت اور تکلیف جیھیلنا بھی شامل ہے، نجات دہندہ نے زور دے کر سمجھایا:

”اگر کوئی میرے پیچھے آنا چاہے تو اپنی خودی کا انکار کرےاور اپنی صلیب اٹھائے اور میرے پیچھے ہو لے۔

”کیونکہ جو کوئی جان بچانا چاہے تو اُسے کھوئے گا؛ اور جو کوئی میری خاطر اپنی جان کھوئے گا اُسے پائے گا۔

” اور اگر آدمِی ساری دُنیا حاصِل کرے اور اپنی جان کا نُقصان اُٹھائے تو اُسے کیا فائِدہ ہوگا؟ یا آدمِی اپنی جان کے بدلے کیا دے گا؟“۴

اس اعلان سے نجات دہندہ نے زور دیا کہ وہ جو اُس کی پیروی پر رضامند ہیں اُنہیں اپنی نفی اور اپنی خواہشوں اشتہاوں اور جذباتوں کو قابو میں رکھنا ہو گا، سب کچھ حتیٰ کہ ضرورت ہو تو اپنی جان بھی قربان کرنی ہو گی، اور مکمل طور پر باپ اطاعت شعاری کرنا ہو گی—ایسے ہی جیسے اُس نے خود کی۔۵ جان کی نجات کے لیے در اصل ادا کی جانے والی قیمت یہی ہے۔ یسوع نے قصداً اور تمثیلاً صلیب کی اصطلاح استعال کی تاکہ اُس کے شاگردوں کو سمجھ آنے میں مدد ہو کہ خُداوند کے مقصد سے ساتھ الفت اور قربانی کا اصل مطلب کیا۔ شاگرد اور رومی سلطنت کے رہنے والے صلیب کےنشان سے اچھی طرح واقف تھے کیونکہ رومی، مصلوب ہونے والوں کو مجبور کرتے تھے کہ سب کے سامنے اپنی صلیب یا اُس کا شہتیر اٹھا کر خود مصلوبیت کی جگہ تک لے جائیں۔۶

اُس کے دوبارہ جی اٹھنے کے بعد ہی اُن کے ذہن کھولے گئے تاکہ وہ سب جو اُس کے بارے میں لکھا گیا تھا سمجھیں۔۷ اور اس وقت سے اُن سے کس چیز کا تقاصا کیا جائے گا۔۸

اِسی طرح بھائیو اور بہنو ہم اسن کو اپنے ذہن و دل کھولنے چاہیں تاکہ ہم سب سمجھیں کہ اپنی صلیب اٹھانے اور اُس کی پیروی کرنے کا کیا مطلب ہے۔ ہمیں صحائف سے پتہ چلتا ہے کہ وہ جو اپنی صلیبیں خود اٹھانا چاہتے ہیںیسوع مسیح سے اِس طرح پیار کرتے ہیں کہ وہ تمام بے دینی اور پر قسم کی دنیاوی شہوت کی نفی کرتے ہیں اور اُس کے احکام پر عمل کرتے ہیں۔۹

یسوع مسیح کی انجیل کے راستے پرچلنے میں ہمارا عزم ہماری مدد کرے گا کہ خُدا کی مرضی کی مخالف سب چیزیں اتار پھینکیں، اور اُن سب چیزوں کی قربانی دیں جو ہم سے مانگی گئی ہیں اور اُس کی تعلیمات پر عمل کریں—تکالیف کے سامنے، اپنی جان کی کمزوری میں، یا سماجی دباو اور دنیاوی فلسفوں کے باوجود، جو اُس کی تعلیمات کے مخالف ہیں۔

مثال کے طور پر وہ جہنیں ابھی تک اپنا ابدی ساتھی نہیں ملا ہےاور ممکن ہے وہ تنہا یا ناامید محسوس کر رہے ہوں، یا وہ جو طلاق یافتہ ہیں یا خود کو ترک شدہ یا بُھولا ہوا محسوس کرتے ہیں، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اپنی صلیب خود اٹھانا اور اُس کی پیروی کرنے کا مطلب ہے کہ ایمان میں خُداوند کی راہ پر چلتے رہیں۔وقار کے نمونے پر قائم رہتے ہوئے اور دنیاوی عادات میں نہ پڑیں جو خُدا کی محبت اور رحم میں ہمارا ایمان ہم سے چھین لیں گی۔

یہی اصول اُن پر بھی لاگو ہوتا ہے جو ہم جنس کشش محسوس کرتے ہیں اور مایوس اور بے یارومددگار محسوس کرتے ہیں۔ ممکن ہے کسی وجہ سے آپ محسوس کرتے ہوں کہ یسوع مسیح کی انجیل پر عمل کرنا اب آپ کے لیے نہیں ہے۔ اگر ایسا ہے تو میں یقین دلاتاہوں کہ خُدا باپ اور اُس کے خوشی کے منصوبے میں، یسوع مسیح میں اور اُس کے مخلصی بخش کفارہ میں اور اُن کے محبت بھرے احکام پر عمل کرنے میں امید ہمیشہ قائم رہتی ہے۔ اپنے کامل فہم، قدرت، انصاف، اور رحم میں خُدا ہمیں اپنا مہر کر سکتا ہے تاکہ ہم اُس کی حضوری میں واپس لائے جائیں اور ابدی نجات پائیں اگر اُس کے احکام پر عمل کرنے میں ثابت قدم اور غیر متزلزل ہوں ۱۰ اور ہمیشہ اچھے کاموں میں مگن رہیں۔۱۱

جن سے بڑے گناہ سرزد ہوئے ہیں، اُن کے لیے اِس دعوت کو قبول کرنے کا مطلب ہےکہ دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ خود کو خُدا کے حضور فروتن کریں مقررہ کلیسیائی رہنماوں کے ساتھ مشورت کریں اور اپنے گناہوں سے توبہ کریں اور اُنہیں ترک کریں۔ یہ سلسلہ اُن کو بھی برکت بخشے گا جو کسی بھی قسم کی لت سے نبرد آزما ہیں اس میں ادوایات، نشے، شراب اور فحشی شامل ہیں۔ یہ اقدام آپ کو نجات دہندہ کے پاس لائیں گے جو آپ کو احساسِ خطا، افسوس اور جسمانی اور روحانی قید سے رہا کر سکتا ہے۔ اضافی طور آپ اپنے خاندان، دوستوں اور طبعی اور پیشہ ورانہ مشورے دینے والوں کے ساتھ بھی بات کر سکتے ہیں۔

بعد ازاں ہونے والی ناکامیوں کے باوجود حوصلہ نہ ہاریں اور اپنے آپ کو گناہ ترک نہ کرنے والا اور لت پر غالب نہ آنے والا مت سمجھیں۔ کوشش ترک کر کے گناہ اور کمزوری میں جاری رکھنا آپ کے لیے بہتر نہیں ہے۔ ہمیشہ اپنی بہترین کوشش کریں، برتن کا اندرون صاف کرنے کی اپنی خواہش کا اظہار اپنے کاموں سے کریں، جیسا نجات دہندہ نے سکھایا ہے۔۱۲ بعض اوقات کسی مسلئے کا حل کئی مہینوں کی مسلسل کوشش کے بعد آتا ہے۔ مورمن کی کتاب میں لکھا ہوا وعدہ ہے کہ ”اپنی پوری کوشش کر لینے کے بعد ہم فضل سے بچائے جاتے ہیں“۱۳ اِس کا اطلاق اِن حالات پر بھی ہوتا ہے۔ یاد رکھیں کہ وقت کے اعتبار سے یسوع مسیح کے فضل کا تحفہ ہماری کوشش کے ”بعد“ تک محدود نہیں ہے۔ جب ہم اپنی کوششوں کو بڑھاتے ہیں تو اُس سے پہلے، اُس دوران یا اُس کے بعد ہم اُس کا فضل پا سکتے ہیں۔۱۴

میں گواہی دیتا ہوں کہ جب ہم مسلسل اپنی مشکلات پرغالب آنے کی کوشش کرتے ہیں تو خُدا ہمیں شفا پانے والے ایمان اور معجزوں کی نعمت بخشے گا۔۱۵ وہ ہمارے لیے وہ کچھ کرے گا جو ہم خود نہیں کر سکتے۔

اضافی طور پر وہ جو تلخی، غصہ ناراضگی یا غم کی ایسی زنجیر سے بندھے ہیں جو آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ پر غیر مستحق طور پر مسلط ہے، اپنی صلیب اٹھانے اور نجات دہندہ کی پیروی کا مطلب ہے کہ اِن احساسات کو برطرف کریں اور خُداوند پر رجوع لائیں تاکہ وہ ہمیں اِس ذہنی حالت سے نجات دے اور اطمینان پانے میں ہماری مدد کرے۔ بد قسمتی سے اگر ہم منفی احساسات اور جذبات کو گلے لگائے رکھیں تو ممکن ہے کہ اپنی زندگیوں میں روح کے اثر کے زندگی گزاریں۔ ہم دوسرے لوگوں کے لیے توبہ نہیں کر سکتےلیکن ہم اُنہیں معاف کر سکتے ہیں — اُن لوگوں کے مغوی بننے سے انکار کر کے جنہوں نے ہمیں نقصان پہنچایا ہے۔۱۶

صحائف بتاتے ہیں کہ اِن حالات سے نکلا جا سکتا ہے—نجات دہندہ کو دعوت دے کر کہ وہ ہماری مدد کرے اور ہمارے پتھریلے دلوں کو نئے دلوں میں بدل دے۔۱۷ ایسا ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی کمزوریوں میں خُداوند کے پاس آئیں۱۸ اور اُس کی معافی اور مدد کی التجا کریں،۱۹ خاص طور پر اُس مقدس لمحے میں جب ہم ہر اتوار عشائے ربانی لیتے ہیں۔ آہم اُس کی معافی اور اس کی مدد کے خواہاں ہوں، اور دوسروں کو جنہوں نے ہمیں تکلیف دی ہے اُنہیں معاف کرنے کا مشکل لیکن اہم قدم اٹھائیں تاکہ ہمارے زخم شفایاب ہونا شروع ہوں۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کی راتیں راحت بخش ہوں کہ جو تب آتی ہے جب ہمارا دماغ خُداوند کے ساتھ اطمینان میں ہو۔

۱۸۳۹ میں لبرٹی جیل میں سے کلیسیا کے ارکان کو ایک خط لکھا جس میں ایسی نبوتیں شامل ہیں جن کا اطلاق ایسے تمام حالات اور صورتِ حال پر ہوتا ہے۔ اُس نےلکھا ”تمام تخت، اور سلطنیتیں اور حکومتیں اور قوتیں منکشف کی جائیں گی اور اُنہیں فراہم کی جائیں گی جنہوں نے یسوع مسیح کی انجیل کے لیے جرات مندانہ طور پر تکلیف اٹھائی ہے۔“۲۰ اس لیے، میرے عزیز بھائیو اور بہنووہ جو خود پر نجات دہندہ کا نام لیتے ہیں، اور آخر تک اُس کے وعدوں پر بھروسہ رکھتے ہیں، بچائے جائیں گے۲۱ اور کبھی نہ ختم ہونے والی خوشی کی حالت میں خُدا کے ساتھ جیئیں گے۔۲۲

ہم اپنی زندگی میں مشکل حالات میں پڑتے ہیں جو ہمیں اداس، بے یار و مددگار اور بعض اوقات کمزور ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔ اس میں سے کچھ حالات ہمیں مجبور کر سکتے ہیں کہ ہم خُداوند سے پوچھیں کہ ” میں ان حالات سے کیوں گزر رہا ہوں؟ یا ” میری امیدیں بر کیوں نہیں آتیں۔ جبکہ میں اپنی پوری کوشش کر رہا ہوں کہ اپنے صلیب اٹھاوں اور نجات دہندہ کی پیروی کروں!“

میرے عزیز دوستو، ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اپنی صلیب خود اٹھانے میں یہ بھی شامل ہے کہ فروتن بنیں اور خُدا پر اور اُس کے لامحدود فہم پر بھروسہ کریں۔ ہمیں پہچاننا چاہیے کہ وہ ہم میں سے ہر ایک کو اور ہماری ضرورتوں کو جانتا ہے، یہ قبول کرنا بھی ضروری ہے کہ خُداوند کے اوقات ہم سے مختلف ہیں۔ بعض اوقات ہم برکات کے خواہاں ہوتے ہیں اور اُسے پانے کے لیے خُداوند پر حد مقرر کر دیتے ہیں۔ ہم اپنی خواہشوں کے جواب مانگتے ہوئے اُس پر حدیں مقرر کر کے اپنی وفا داری ثابت نہیں کر سکتے۔ جب ہم ایسا کرتے ہیں تو ہم شک کرنے والے قییم نیفیوں کی مانند بن جاتے ہیں جنہوں نے اپنے بھائیوں اور بہنوں کا یہ کہتے ہوئے مذاق اُڑایا کہ لامنی سموئیل کے کہے الفاظ پورے ہونے کا وقت گزر چکا ہے اور یوں اُنہوں نے ایمان رکھنے والوں میں بے چینی پھیلائی۔۲۳ ہمیں خُداوند پر اتنا بھروسہ رکھنا چاہیے کہ ہم ساکن ہو جائیں اور جان لیں کہ وہ خُدا ہے اور یہ کہ وہ تمام چیزیں جانتا ہے، اور کہ وہ ہم میں سے ہر ایک کے بارے میں با خبر ہے۔۲۴

شبیہ
ایلڈر سوارس بہن کالاماسی کی خدمت گزاری کرتے ہوئے

حال ہی میں مجھے بہن فرانکا کالاماسی کی خدمت گزاری کا موقع ملا جو بڑی سخت بیماری سے گزر رہی ہے۔ بہن کلاماسی اپنے خاندانی میں یسوع مسیح کی بحال شدہ انجیل قبول کرنے والی پہلی رکن تھیں۔ گو کہ اُن کے خاوند نے کبھی بپتسمہ نہ لیا، وہ مشنریوں سے ملنے پر رضامند اور اکثر کلیسئی عبادات میں شامل ہوتا تھا۔ ان حالات کے باوجود بہن کالاماسی وفادار رہیں اور اپنے چار بچوں کی یسوع مسیح کی انجیل کے مطابق پرورش کی۔ اپنے خاوند کی موت کے ایک سال بعد بہن کالاماسی اپنے چاروں بچوں کو ہیکل میں لے کر گئیں اور مقدس رسومات میں شامل ہوئے، اور بطور خاندان مہر ہوئے۔ ان رسومات کے ساتھ منسلک وعدوں نے اُنہیں اس قدر امید، خوشی اور شادمانی عطا کی کہ وہ اپنی باقی زندگی گزارنے کے قابل ہو گئیں۔

شبیہ
کالاماسی خاندان ہیکل کے پاس

جب بیماری کی اولین علامات ظاہر ہونا شروع ہوئیں تو اُن کے بشپ نے اُنہیں برکت دی۔ اُس وقت اُس نے بشپ کو بتایا کہ برکت کے نتائج سے قعطع نظر وہ خُدا کی مرضی قبول کرنے کے لیے تیار تھی، اُس نے شفا پانے کے ایمان کا اظہار کیا اور ساتھ ہی آخر تک اپنی بیماری برداشت کرنے کے ایمان کا بھی اظہار کیا۔

ہماری ملاقات کے دوران بہن کلاماسی کا ہاتھ تھام کرجب میں نے اُن کی آنکھوں میں دیکھا تو مجھے اُن کے چہرے سے فرشتوں کا سا نور چمکتا نظار آیا—خُدا کے منصوبے میں اُن کا اعتماد نظر آیا اور اپنےلیے باپ کی محبت اور منصوبے میں امید کی چمک نظر آئی۔۲۵ میں نے اُن کے ایمان میں آخر تک برداشت کرنے کا مصمم ارادہ محسوس کیا کہ اپنی مشکلات کے باوجود وہ اپنی صلیب اٹھا رہی تھیں۔ اِس بہن کی زندگی مسیح کی گواہی، اُس کے ایمان اور اُس کے ساتھ خلوص ؃کا بیان ہے

عزیز بھائیو اور بہنو میں گواہی دینا چاہتا ہوں کہ اپنی صلیب اٹھانا اور نجات دہندہ کی پیروی کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اُس کی مثال کی پیروی کریں، اُس کی مانند بننے کی کوشش کریں،۲۶ اپنی زندگی کے حالات کا صبر سے سامنہ کریں آدمِ فانی کی نفی کریں اور اُس کی خواہشات سے نفرت رکھیں، اور خُداوند کے منتظر رہیں۔ زبور نویس کہتا ہے:

خُداوند کی آس رکھ، مضبوط ہو اور تیرا دل قوی ہو، ہاں خُداوند کی آس رکھ۲۷

وہی ہماری کمک اور سَپر ہے۔۲۸

میں گواہی دیتا ہوں کہ مالک کے نقشِ قدم چلنے اور اُس پر آس رکھنے سے، جو ہماری زندگیوں کا عظیم شافی ہے، ہماری جانوں کو آرام ملے گا اور ہمارے بوجھ آسان اور ہلکے ہو جائیں گے۔۲۹ میں یسوع مسیح کے نام میں اِن چیزوں کی گواہی دیتا ہوں، آمین